Home ≫ ur ≫ Surah Sad ≫ ayat 44 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ-اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(44)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا: اور اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لو۔} بیماری کے زمانہ میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سے گئیں تو دیر سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔جب حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صحت یاب ہوئے تواللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں جھاڑو مار دیں اور اپنی قسم نہ توڑیں ،چنانچہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سَو تیلیوں والا ایک جھاڑو لے کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار ماردیا ۔( بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۹، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۴۴،ص۳۸۳، ملتقطاً)
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قسم کھانے کا ایک سبب اوپر بیان ہوا اور دوسرا سبب بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ایوب عَلَیْہِ وَعَلٰی نَبِیِّنَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی ہیں کہ آزمائش واِبتلاء کے دور میں آپ کی پاکیزہ بیوی جن کا نام رحمہ بنت آفرائیم، یا میشا بنت ِیوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھا، وہ آپ کیلئے محنت ومزدوری کرکے خوراک مہیا فرماتی تھیں ، ایک دن انہوں نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں زیادہ کھانا پیش کیا تو حضرت ایوب عَلَیْہِ السَّلَام کو گمان ہوا کہ شاید وہ کسی کا مال خیانت کے ذریعہ حاصل کرلائی ہیں ،اس پر آپ کو غصہ آیا تو آپ نے قسم کھائی کہ اس کو ایک سو چھڑی ماروں گا۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: الجوہر الثمین فی علل نازلۃ الیمین، ۱۳ / ۵۲۶) آگے کی تفصیل وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔
مفسرین نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ پر اس رحمت اورتخفیف کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ بیماری کے زمانہ میں انہوں نے اپنے شوہر کی بہت اچھی طرح خدمت کی اور آپ کے شوہر آپ سے راضی ہوئے تو ا س کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آسانی فرمائی۔( ابوسعود، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۴۴۴، ملخصاً)
شوہر کو خوش رکھنا بیوی کیلئے نہایت ثواب کا کام ہے اورتنگ کرنا اور ایذاء پہنچانا سخت گناہ ہے، ہمارے ہاں بعض اوقات معمولی سی بات پر بیویاں شوہر سے طلاق کا مطالبہ کردیتی ہیں ، اور یہ حرکت شوہر کیلئے نہایت تکلیف دِہ ہوتی ہے ،ایسی عورتوں کے لئے درج ذیل 3اَحادیث میں بھی بہت عبرت اور نصیحت ہے،چنانچہ
(1)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو عورت بغیر کسی حرج کے شوہر سے طلاق کا سوال کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، کتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء فی المختلعات، ۲ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۱)
(2)… حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’جس عورت نے بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے خلع لی تو وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ سکے گی۔ (ترمذی، کتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء فی المختلعات، ۲ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۰)
(3)…حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورِعِین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے اِسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔( ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب فی المرأۃ تؤذی زوجہا، ۲ / ۴۹۸، الحدیث: ۲۰۱۴)
اللہ تعالیٰ ایسی عورتوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
فقہاء ِکرام نے اس آیت سے شرعی حیلوں کے جواز پر اِستدلال کیا ہے ،چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے’’جو حیلہ کسی کا حق مارنے یا اس میں شبہ پیدا کرنے یا باطل سے فریب دینے کیلئے کیا جائے وہ مکروہ ہے اور جوحیلہ اس لئے کیا جائے کہ آدمی حرام سے بچ جائے یا حلال کو حاصل کر لے وہ اچھا ہے ۔ اس قسم کے حیلوں کے جائز ہونے کی دلیل اللہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فر مان ہے: ’’وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (فرمایا) اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔( فتاوی عالمگیری، کتاب الحیل، الفصل الاول، ۶ / ۳۹۰)
البتہ یاد رہے کہ قابلِ اعتماد مُفتیانِ کرام سے رہنمائی لئے بغیر عوامُ النّاس کو کوئی حیلہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بعض حیلوں کی شرعی طور پر اجازت نہیں ہوتی اور بعض اوقات حیلہ کرنے میں ایسی غلطی کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے حیلہ ہوتا ہی نہیں ۔
{اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا: بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا۔} یعنی بے شک ہم نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جان، اولاد اور مال میں آزمائش پر صبر کرنے والا پایا اورا س آزمائش نے انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے اورکسی مَعصِیَت میں مبتلا ہو جانے پر نہیں ابھارا۔وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع لانے والا ہے۔( تفسیرطبری، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱۰ / ۵۹۱، بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۹، ملتقطاً)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قیامت کے دن صبر کرنے والوں کے سردار ہوں گے۔( ابن عساکر، ذکر من اسمہ: ایوب، ایوب نبیّ اللّٰہ، ۱۰ / ۶۶)