Home ≫ ur ≫ Surah Sad ≫ ayat 69 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَا كَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍۭ بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰۤى اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ(69)
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ: جب وہ بحث کررہے تھے۔} بحث کرنے والوں کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ فرشتے ہیں جو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔اس صورت میں یہ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت صحیح ہونے کی ایک دلیل ہے، مُدّعا یہ ہے کہ اگر میں نبی نہ ہوتا توعالَمِ بالا میں فرشتوں کا حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں سوال و جواب کرنا مجھے کیا معلوم ہوتا ،اس کی خبر دینا میری نبوت اور میرے پاس وحی آنے کی دلیل ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے وہ فرشتے مراد ہیں جو اس چیز میں بحث کر رہے تھے کہ کون سے کام گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں ۔( قرطبی،ص،تحت الآیۃ:۶۹،۸ / ۱۶۶-۱۶۷،الجزء الخامس عشر، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۱۰۲۷، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ نے اس کا علم بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا کیا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا کہ میں اپنے بہترین حال میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے دیدار سے مشرف ہوا (حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ واقعہ خواب کا ہے) حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تمہیں معلوم ہے کہ عالَمِ بالا کے فرشتے کس بحث میں ہیں ۔میں نے عرض کی:’’نہیں ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ رحمت و کرم میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور میں نے اس کے فیض کا اثر اپنے قلب ِمبارک میں پایا تو آسمان و زمین کی تمام چیزیں میرے علم میں آگئیں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیا تم جانتے ہو کہ عالَمِ بالا کے فرشتے کس چیز کے بارے میں بحث کررہے ہیں ؟ میں نے عرض کی:’’ ہاں ،اے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں جانتا ہوں ، وہ کَفّارات میں بحث کررہے ہیں اور کَفّارات یہ ہیں ، نمازوں کے بعد مسجدمیں ٹھہرنا ، پیدل جماعتوں کے لئے جانا ، جس وقت سردی وغیرہ کے باعث پانی کا استعمال ناگوار ہو اس وقت اچھی طرح وضو کرنا ۔جس نے یہ کیا اس کی زندگی بھی بہتر ،موت بھی بہتر اور وہ گناہوں سے ایسا پاک صاف نکلے گا جیسا اپنی ولادت کے دن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نماز کے بعد یہ دعا کیا کرو: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ وَاِذَا اَرَدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَمَفْتُوْنْ‘‘۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴)
بعض روایتوں میں یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’مجھ پر ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۶۰، الحدیث: ۳۲۴۶)
اور ایک روایت میں ہے کہ جو کچھ مشرق و مغرب میں ہے سب میں نے جان لیا ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۵۹، الحدیث: ۳۲۴۵)
علامہ علاؤ الدین علی بن محمد بن ابراہیم بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ جو کہ خازن کے نام سے معروف ہیں ، اپنی تفسیر میں ’’دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھنے اور ٹھنڈک محسوس ہونے ‘‘کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سینۂ مبارک کھول دیا اور قلب شریف کومُنَوّر کردیا اور جن چیزوں کو کوئی نہ جانتا ہو ان سب کی معرفت آپ کو عطا کردی حتّٰی کہ آپ نے نعمت و معرفت کی ٹھنڈک اپنے قلب ِمبارک میں پائی اور جب قلب شریف منور ہوگیا اور سینہ ٔ پاک کھل گیا تو جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جان لیا۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۴۶)