Home ≫ ur ≫ Surah Taha ≫ ayat 115 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا(115)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ:اور بیشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے تاکیدی حکم دیا تھا۔} اس سے پہلے سورۂ بقرہ، سورۂ اَعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں مختلف حکمتوں کی وجہ سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہو ا اور اب یہاں سے چھٹی بار ان کا واقعہ بیان کیا جا رہاہے اور اسے ذکر کرنے میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے شیطان انسانوں کا بڑ اپرانا دشمن ہے ا س لئے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ شیطان کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہے اور اس کے وسوسوں سے بچنے کی تدابیر اختیار کرے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس زمانے سے پہلے تاکیدی حکم دیا تھا کہ وہ ممنوعہ درخت کے پاس نہ جائیں لیکن یہ حکم انہیں یاد نہ رہا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ممنوعہ درخت کے پاس چلے گئے البتہ اس جانے میں ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
آیت ’’وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ‘‘ سے معلوم ہونے والے عقائد و مسائل:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جان بوجھ کر ممنوعہ درخت سے نہیں کھایا بلکہ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کا حکم یاد نہ رہنا تھا اور جو کام سہواً ہو وہ نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی مُؤاخذہ ہوتا ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’قرآن عظیم کے عُرف میں اِطلاقِ معصیت عمد (یعنی جان بوجھ کر کرنے ) ہی سے خاص نہیں ، قال اللہ تعالٰی ’’وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ‘‘( طہٰ:۱۲۱) آدم نے اپنے رب کی معصیت کی۔ حالانکہ خود فرماتا ہے ’’فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا‘‘ آدم بھول گیا ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔ لیکن سہو نہ گناہ ہے نہ اس پر مؤاخذہ۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۰)
اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ آیت ِ مبارکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمت کو بڑے واضح طور پر بیان کرتی ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھول گئے تھے اور ان کا نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
(2)… ہم جیسوں کے لئے بھول چوک معاف ہے مگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پران کی عظمت و شان کی وجہ سے اس بنا پر بھی بعض اوقات پُرسش ہوجاتی ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جتنا قرب زائد اسی قدر احکام کی شدت زیادہ ۔ ع
جن کے رتبے ہیں سوا اُن کو سوا مشکل ہے۔
بادشاہِ جبّار، جلیل القدر ایک جنگلی گنوار کی جو بات سن لے گا (اور اس کے ساتھ) جو برتاؤ گوارا کرے گا (وہ) ہر گز شہریوں سے پسند نہ کرے گا (اور) شہریوں میں بازاریوں سے معاملہ آسان ہوگا اور خاص لوگوں سے سخت اور خاصوں میں درباریوں اور درباریوں میں وزراء ، (الغرض) ہر ایک پربار دوسرے سے زائد ہے، اس لیے وارد ہوا ’’حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ‘‘نیکوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گناہ ہیں ۔ وہاں ترکِ اَولیٰ کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ ترک اولیٰ ہر گز گناہ نہیں۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۰)
(3)… ہر شخص شیطان سے ہوشیار رہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم تھے اور جنت محفوظ جگہ تھی پھر بھی ابلیس نے اپنا کام کردکھایا، تو ہم لوگ کس شمار میں ہیں ۔