banner image

Home ur Surah Taha ayat 129 Translation Tafsir

وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَّ اَجَلٌ مُّسَمًّىﭤ(129)

ترجمہ: کنزالایمان اور اگر تمہارے رب کی ایک بات نہ گزر چکی ہوتی تو ضرور عذاب انھیں لپٹ جاتا اور اگر نہ ہوتا ایک وعدہ ٹھہرایا ہوا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے (طے) نہ ہو چکی ہوتی اور ایک مقررہ مدت نہ ہوتی تو ضرور عذاب انہیں لپٹ جاتا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ:اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہو چکی ہوتی۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک بات پہلے طے نہ ہو چکی ہوتی کہ محمد مصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت ِ دعوت کے عذاب میں  قیامت تک تاخیر کی جائے گی اور سابقہ امتوں  کی طرح جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دینے والا عذاب ان پر نازل نہیں  کیا جائے گااور قیامت کے دن ان کے عذاب کی ایک مقررہ مدت نہ ہوتی تو ضرور عذاب انہیں  دنیا ہی میں  لپٹ جاتا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۵ / ۴۴۳)

اس امت پر عذابِ عام نہ آنے کی وجوہات:

اس سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی امت میں  سے جو لوگ آپ کو جھٹلائیں  گے اور آپ پر ایمان نہ لائیں  گے توان پر دنیا میں  ویسا عذاب نہیں  آئے گا جیسا پچھلی امتوں  کے کفار پر نازل کیا گیا تھا کہ ان کی تمام بستیاں  تباہ و برباد کر دی جائیں  اور ان میں سے کوئی کافر زندہ نہ بچے، مفسرین نے اس کی چند وجوہات بھی بیان کی ہیں  جو کہ درج ذیل ہیں :

(1)… اللہ تعالیٰ کے علم میں  ہے کہ ان جھٹلانے والوں  میں  سے بعض کفارایمان لے آئیں  گے اس لئے ان پر ویسا عذاب نازل نہ ہو گا۔

(2)… اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ان جھٹلانے والوں  کی نسل میں  کچھ ایسے لوگ پیداہوں  گے جومسلمان ہوجائیں  گے، اس لئے اگران پرعذاب نازل کردیاجائے تووہ لوگ بھی ہلاک ہوجائیں  گے ۔

(3)…بعض مفسرین کہتے ہیں  کہ اس میں  کوئی مصلحت پوشیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔

(4)… اللہ تعالیٰ مالک ومولیٰ ہے جسے چاہے عذاب دے اورجسے چاہے اپنے فضل کی وجہ سے عذاب سے مُستثنیٰ کردے۔(تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۸ / ۱۱۲)

(5)…علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں’’بے شک  اللہ تعالیٰ کے علم میں  تھا کہ وہ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اِکرام کی وجہ سے ان کی امت سے عذابِ عام کو مُؤخَّر فرما دے گا اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس امت پر بھی ویسا ہی عذاب نازل ہوتا جیسا سابقہ امتوں  پر نازل ہوا تھا۔( صاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۴ / ۱۲۸۶)

عذاب مؤخر کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ جس نے (اپنے کفر و مَعاصی سے) توبہ کرنی ہے وہ توبہ کر لے اور جو (اپنے کفر و معاصی پر) قائم رہنا چاہتا ہے اس کی حجت ختم ہو جائے لہٰذا ہر عقلمند مُکَلَّف کو چاہئے کہ وہ قرآن مجید کی نصیحتوں  سے نصیحت حاصل کرے اور قادر و حکیم رب تعالیٰ سے ڈرے اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور ا س کی بارگاہ میں  سرِ تسلیم خم کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور انسان ہونے، اشرفُ المخلوقات ہونے اور تمام مصنوعات میں  سب سے بہترین ہونے کے باوجود جمادات سے بھی برا نہ بنے کہ قرآن پاک میں  ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے خوف سے پتھر بھی اپنی جگہ سے گر جاتے ہیں  اور ان سے بھی پانی جاری ہوتا ہے۔