Home ≫ ur ≫ Surah Taha ≫ ayat 28 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ(25)وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْ(26)وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ(27)یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ(28)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ رَبِّ:موسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب!}اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سر کش فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا گیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جان گئے کہ انہیں ایک ایسے عظیم کا م کا پابند کیا گیا ہے جس کے لئے سینہ کشادہ ہونے کی حاجت ہے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میرے لیے میرا سینہ کھول دے اور اسے رسالت کا بوجھ اٹھانے کے لئے وسیع فرما دے اور اسباب پیدا فرما کر دیگر رکاوٹیں ختم کر کے میرے لیے میرا وہ کام آسان فرما دے جس کاتو نے مجھے حکم دیا ہے اور میری زبان کی گرہ کھول دے جو بچپن میں آگ کا انگارہ منہ میں رکھ لینے سے پڑ گئی ہے تاکہ وہ لوگ رسالت کی تبلیغ کے وقت میری بات سمجھیں ۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ص۶۸۹-۶۹۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ۳ / ۲۵۲-۲۵۳، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ۵ / ۳۷۸، ملتقطاً)
{وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ:اور میری زبان سے گرہ کھول دے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان میں لُکْنت پیدا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں ایک دن فرعون نے آپ کواٹھایا تو آپ نے اس کی داڑھی پکڑ کر اس کے منہ پر زور سے طمانچہ مار دیا، اِس پر اُسے غصہ آیا اور اُس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا، یہ دیکھ کر حضرت آسیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہانے کہا: اے بادشاہ! یہ ابھی بچہ ہے اسے کیا سمجھ؟ اگر تو تجربہ کرنا چاہے تو تجربہ کرلے۔ اس تجربہ کے لئے ایک طشت میں آگ اور ایک طشت میں سرخ یاقوت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے پیش کئے گئے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یاقوت لینا چاہا مگر فرشتے نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہاتھ انگارہ پر رکھ دیا اور وہ انگارہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے منہ میں دے دیا اس سے زبان مبارک جل گئی اور لکنت پیدا ہوگئی۔( بغوی، طہ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۱۸۲)