banner image

Home ur Surah Taha ayat 44 Translation Tafsir

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(44)

ترجمہ: کنزالایمان تو اس سے نرم بات کہنا اس امید پر کہ وہ دھیان کرے یا کچھ ڈرے۔ ترجمہ: کنزالعرفان توتم اس سے نرم بات کہنا اس امید پر کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈرجائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا:توتم اس سے نرم بات کہنا ۔} یعنی جب تم فرعون کے پاس جاؤ تو اسے نرمی کے ساتھ نصیحت فرمانا۔ بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کے ساتھ نرمی کا حکم اس لئے تھا کہ اس نے بچپن میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت کی تھی اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ نرمی سے مراد یہ ہے کہ آپ اس سے وعدہ کریں  کہ اگر وہ ایمان قبول کرے گا تو تمام عمر جوان رہے گا کبھی بڑھاپا نہ آئے گا ، مرتے دم تک اس کی سلطنت باقی رہے گی ، کھانے پینے اور نکاح کی لذتیں  تادمِ مرگ باقی رہیں  گی ا ور مرنے کے بعد جنت میں  داخلہ نصیب ہو گا ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون سے یہ وعدے کئے تو اسے یہ بات بہت پسند آئی لیکن وہ کسی کام پر ہامان سے مشورہ لئے بغیر قطعی فیصلہ نہیں  کرتا تھا اور اس وقت ہامان موجود نہ تھا (اس لئے ا س نے کوئی فیصلہ نہ کیا) جب وہ آیا تو فرعون نے اسے یہ خبر دی اور کہا کہ میں  چاہتا ہوں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہدایت پر ایمان قبول کر لوں ۔ یہ سن کر ہامان کہنے لگا: میں  تو تجھے عقلمند اور دانا سمجھتا تھا (لیکن یہ کیا کہ ) تو رب ہے اور بندہ بننا چاہتا ہے ، تو معبود ہے اور عابد بننے کی خواہش کرتا ہے ؟ فرعون نے کہا: تو نے ٹھیک کہا (یوں  وہ ایمان قبول کرنے سے محروم رہا)۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۵۴)

{لَعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى:اس امید پر کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈرجائے۔} یعنی آپ کی تعلیم اور نصیحت اس امید کے ساتھ ہونی چاہیے کہ آپ کواجر و ثواب ملے اور اس پر حجت لازم ہو جائے اور اس کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے اور حقیقت میں  ہونا تو وہی ہے جو  اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۶۹۲، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۵۵، ملتقطاً)

نرمی کے فضائل:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ دین کی تبلیغ نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے اور تبلیغ کرنے والے کوچاہیے کہ وہ پیار محبت سے نصیحت کرے کیونکہ اس طریقے سے کی گئی نصیحت سے یہ امید ہوتی ہے کہ سامنے والا نصیحت قبول کر لے یا کم از کم اپنے گناہ کے معاملے میں   اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرے۔ نیز یاد رہے کہ دین کی تبلیغ کے علاوہ دیگر دینی اور دُنْیَوی معاملات میں  بھی جہاں  تک ممکن ہو نرمی سے ہی کام لینا چاہئے کہ جو فائدہ نرمی کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے وہ سختی کرنے کی صورت میں  حاصل ہو جائے یہ ضروری نہیں ۔ ترغیب کے لئے یہاں  نرمی کے فضائل پر مشتمل 4 اَحادیث درج ذیل ہیں ۔

(1)…حضرت جریر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص نرمی سے محروم رہاوہ بھلائی سے محروم رہا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، الحدیث: ۷۴(۲۵۹۲))

(2)…حضرت ابو درداء رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کو نرمی سے حصہ دیا گیا اسے بھلائی سے حصہ دیا گیا اور جسے نرمی کے حصے سے محروم رکھا گیا اسے بھلائی کے حصے سے محروم رکھا گیا۔( ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی الرفق، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۲۰۲۰)

(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے عائشہ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا،  اللہ تعالیٰ رفیق ہے اور رِفق یعنی نرمی کو پسند فرماتا ہے اور  اللہ تعالیٰ نرمی کی وجہ سے وہ چیزیں  عطا کرتا ہے جو سختی یا کسی اور وجہ سے عطا نہیں  فرماتا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، الحدیث: ۷۷(۲۵۹۳))

(4)…اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاسے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’نرمی جس چیز میں  بھی ہوتی ہے وہ اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جاتی ہے اسے بد صورت کر دیتی ہے۔(مسلم، کتاب البرّ الصلۃ والآادب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، الحدیث: ۷۸(۲۵۹۴))

رحمت ِالٰہی کی جھلک:

            اس آیت سے  اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جھلک بھی نظر آتی ہے کہ اپنی بارگاہ کے باغی اور سرکش کے ساتھ کس طرح اس نے نرمی فرمائی اور جب اپنے نافرمان بندے کے ساتھ اس کی نرمی کا یہ حال ہے تو اطاعت گزار اور فرمانبردار بندے کے ساتھ اس کی نرمی کیسی ہو گی۔ حضرت یحیٰ بن معاذ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت کی گئی تو آپ رونے لگے اور عرض کی : (اے اللّٰہ!) یہ تیری اس بندے کے ساتھ نرمی ہے جو کہتا ہے کہ میں  معبود ہوں  تو اس بندے کے ساتھ تیری نرمی کا کیا حال ہو گا جو کہتاہے کہ صرف تو ہی معبود ہے اور یہ تیری اس بندے کے ساتھ نرمی ہے جو کہتا ہے: میں  تم لوگوں  کا سب سے اعلیٰ رب ہوں  تو اس بندے کے ساتھ تیری نرمی کا کیا عالَم ہو گا جو کہتا ہے :میرا وہ رب پاک ہے جو سب سے بلند ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۶۹۲)