banner image

Home ur Surah Taha ayat 72 Translation Tafsir

قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰى مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَاۤ اَنْتَ قَاضٍؕ-اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاﭤ(72)

ترجمہ: کنزالایمان بولے ہم ہرگز تجھے ترجیح نہ دیں گے ان روشن دلیلوں پر جو ہمارے پاس آئیں ہمیں اپنے پیدا کرنے والے کی قسم تو تُو کر چُک جو تجھے کرنا ہے تو اس دنیا ہی کی زندگی میں تو کرے گا ۔ ترجمہ: کنزالعرفان انہوں نے کہا: ہم ان روشن دلیلوں پر ہرگز تجھے ترجیح نہ دیں گے جو ہمارے پاس آئی ہیں ۔ ہمیں اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ! تو تُوجو کرنے والا ہے کر لے۔ تو اس دنیا کی زندگی میں ہی توکرے گا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} فرعون کا یہ مُتکبّرانہ کلمہ سن کر ان جادوگروں  نے کہا: ہم ان روشن دلیلوں  پر ہرگز تجھے ترجیح نہ دیں  گے جو ہمارے پاس آئی ہیں ۔ روشن دلیلوں  کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ۔ بعض مفسرین کے نزدیک ان سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا روشن ہاتھ اور عصا مراد ہے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جادو گروں  کا اِستدلال یہ تھا : اگر تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزہ کو بھی جادو کہتا ہے تو بتا وہ رسّے اور لاٹھیاں  کہاں  گئیں  اور بعض مفسرین کہتے ہیں  کہ روشن دلیلوں  سے مراد جنت اور اس میں  اپنی مَنازل کا دیکھنا ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۲۵۸)

{وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا:ہمیں  اپنے پیدا کرنے والے کی قسم !} جادوگروں  نے فرعون سے کہا کہ ہمیں  اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ! تو جو کرنے والا ہے کر لے ہمیں  اس کی کچھ پرواہ نہیں  اور تو ہمارے ساتھ جو کچھ بھی کرے گا اس دنیا کی زندگی میں  ہی توکرے گا ، اس سے آگے تو تیری کچھ مجال نہیں  اور دنیا کا حال تو یہ ہے کہ وہ زائل اور یہاں  کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور اگر تو ہم پر مہربان بھی ہو تو ہمیں  ہمیشہ کے لئے بقا نہیں  دے سکتا، پھر دنیا کی زندگانی اور اس کی راحتوں  کے زوال کا کیا غم، خاص طور پر اسے جو جانتا ہے کہ آخرت میں  دنیا کے اعمال کی جزا ملے گی۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۸ / ۷۷-۷۸)

            اس آیت میں  بیان ہو اکہ جادوگروں  نے مومن ہو کر فرعون سے کہہ دیا کہ جو ہو سکے تو کرلے ہمیں  اس کی پرواہ نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ مومن کے دل میں  جرأت ہوتی ہے اور وہ ایمان لانے کی صورت میں  مخلوق کی طرف سے اَذِیَّت پہنچنے کی پرواہ نہیں  کرتا۔ اس سے واضح ہوا کہ قادیانی کا نبی ہونا تو بڑی دور کی بات وہ تو مومن بھی نہیں  تھا کیونکہ وہ لوگوں  سے اتنا ڈرتا تھا کہ ان کے خوف کی وجہ سے حج ہی نہ کر سکا۔