banner image

Home ur Surah Taha ayat 82 Translation Tafsir

یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ قَدْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَ وٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى(80)كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ لَا تَطْغَوْا فِیْهِ فَیَحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبِیْۚ-وَ مَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْهِ غَضَبِیْ فَقَدْ هَوٰى(81)وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى(82)

ترجمہ: کنزالایمان اے بنی اسرائیل بیشک ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی اور تمہیں طور کی د ہنی طرف کا وعدہ دیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا ۔ کھاؤ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی دیں اور اس میں زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا غضب اترے اور جس پر میرا غضب اترا بیشک وہ گرا ۔ اور بیشک میں بہت بخشنے والا ہوں اسے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھا کام کیا پھر ہدایت پر رہا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے بنی اسرائیل! بیشک ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تمہارے ساتھ کوہِ طور کی دائیں جانب کا وعدہ کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا ۔ جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اس میں زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا غضب اترآئے اور جس پر میرا غضب اترآیا توبیشک وہ گرگیا۔ اور بیشک میں اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اے بنی اسرائیل!} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور ا س کی قوم کے غرق ہونے کے بعد  اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ اے بنی اسرائیل! بیشک ہم نے تمہیں  تمہارے دشمن فرعون اور ا س کی قوم سے نجات دی جو تمہارے بیٹوں  کو ذبح کرتے ،بیٹیوں  کو زندہ رکھتے اور تم سے انتہائی محنت و مشقت والے کام لیتے تھے، اور ہم نے اپنے نبی عَلَیْہِ  السَّلَام کے ذریعے تمہارے ساتھ کوہِ طور کی دائیں  جانب کا وعدہ کیا کہ ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وہاں  توریت عطا فرمائیں  گے جس پر عمل کیا جائے اور ہم نے تم پر تیہ کے میدان میں  مَنّ و سَلْویٰ اتارا اور فرمایا ’’ ہم نے جو پاکیزہ رزق تمہیں  دیا ہے اس میں  سے کھاؤ اور اس میں  ناشکری اور نعمت کا انکار کر کے اور ان نعمتوں  کو مَعاصی اور گناہوں  میں  خرچ کر کے یا ایک دوسرے پرظلم کر کے زیادتی نہ کرو ورنہ تم پر میرا غضب اتر آئے گااور جس پر میرا غضب اتر آیا توبیشک وہ جہنم میں  گرگیا اور ہلاک ہوا اور بیشک میں  اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں  جس نے شرک سے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر آخری دم تک ہدایت پر رہا۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۲، ۵ / ۴۱۰-۴۱۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۲، ۳ / ۲۵۹-۲۶۰، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۲، ص۶۹۸-۶۹۹، ملتقطاً)

توبہ کی اہمیت اور ا س کی قبولیت:

            اس سے معلوم ہوا کہ توبہ ایسی اہم ترین چیز ہے جس سے بندہ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش اور مغفرت کا پروانہ حاصل کر سکتا ہے ۔ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :جان لو کہ توبہ صابن کی طرح ہے تو جس طرح صابن ظاہری میل کچیل کو دور کر دیتا ہے اسی طرح توبہ باطنی یعنی گناہوں  کے میل اور گندگیوں  کو صاف کر دیتی ہے۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۴۱۲)البتہ یہاں  یہ بات یاد رہے کہ وہی توبہ مقبول اور فائدہ مند ہے جو سچی ہو اور سچی توبہ اپنے گناہ کا اقرار کرنے ، اس پر نادم و شرمسار ہونے اور آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کے پختہ ارادے کا نام ہے اور جو لوگ فقط زبان سے توبہ کے الفاظ دہرا لینے یا ہاتھ سے توبہ توبہ کے اشارے کر لینے کو کافی سمجھتے ہیں  تو وہ یاد رکھیں  کہ یہ حقیقی توبہ نہیں  ہے۔