Home ≫ ur ≫ Surah Yasin ≫ ayat 12 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ(12)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى: بیشک ہم مُردوں کو زندہ کریں گے۔} اس سے پہلی آیات میں دین کے ایک بنیادی اصول یعنی رسالت کا ذکر ہوا اور اب یہاں سے ایک اور بنیادی اصول یعنی قیامت کا ذکر کیا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک قیامت کے دن ہم اپنی کامل قدرت سے مُردوں کو زندہ کریں گے نیزدنیا کی زندگی میں انہوں نے جو نیک اور برے اعمال کئے وہ ہم لکھ رہے ہیں تاکہ ان کے مطابق انہیں جز ادی جائے اور ہم ان کی وہ نشانیاں اوروہ طریقے بھی لکھ رہے ہیں جو وہ اپنے بعد چھوڑ گئے خواہ وہ طریقے نیک ہوں یا برے، اور ایک ظاہر کردینے والی کتاب لوحِ محفوظ میں ہر چیز ہم نے شمار کررکھی ہے۔(تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۵۷، مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۷۴-۹۷۵، خازن، یس، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳، ملتقطاً)
{وَ اٰثَارَهُمْ: اور ان کے پیچھے چھوڑے ہوئے نشانات۔} آیت کی تفسیر میں بیان ہوا کہ لوگ جو طریقے اپنے پیچھے چھوڑ گئے وہ لکھے جارہے ہیں ، یہ طریقے اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی،دونوں کا حکم جدا جدا ہے لہٰذا لوگ جو نیک طریقے نکالتے ہیں ان کو بدعت ِحَسَنہ یعنی اچھی بدعت کہتے ہیں اور اس طریقے کو نکالنے والوں اوراس پر عمل کرنے والوں دونوں کو ثواب ملتا ہے اور جو برے طریقے نکالتے ہیں ان کو بدعت ِسَیِّئہ یعنی بری بدعت کہتے ہیں ، اس طریقے کونکالنے والے اور عمل کرنے والے دونوں گناہ گار ہوتے ہیں ۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص نے اسلام میں نیک طریقہ نکالا اس کو طریقہ نکالنے کا بھی ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی ثواب ملے گااور عمل کرنے والوں کے اپنے ثواب میں کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس نے اسلام میں برا طریقہ نکالا تو اس پر وہ طریقہ نکالنے کا بھی گناہ ہو گااور اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا بھی گناہ ہو گا اور ان عمل کرنے والوں کے اپنے گناہ میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحثّ علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ۔۔۔ الخ، ص۵۰۸، الحدیث: ۶۹(۱۰۱۷))
اس سے معلوم ہوا کہ سینکڑوں اچھے کام جیسے شریعت کے مطابق فاتحہ،گیارہویں ،سوئم،چالیسواں ، عرس ، ختم، اور میلاد کی محفلیں وغیرہ جنہیں کم علم لوگ بدعت کہہ کر منع کرتے ہیں اور لوگوں کو ان نیکیوں سے روکتے ہیں ،یہ سب نیک کام درست اور اجر و ثواب کا باعث ہیں اور ان کو بدعتِ سیّئہ یعنی بری بدعت بتانا غلط ہے ۔ یہ طاعات اور نیک اعمال جو ذکر و تلاوت اور صدقہ و خیرات پر مشتمل ہیں بری بدعت نہیں ، کیونکہ بری بدعت وہ برے طریقے ہیں جن سے دین کو نقصان پہنچتا ہے اور جو سنت کے مخالف ہیں ، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا کہ جو قوم بدعت نکالتی ہے اس سے بدعت کی مقدار سنت اٹھ جاتی ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث غضیف بن الحارث رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۶ / ۴۰، الحدیث: ۱۶۹۶۷)
تو بری بدعت وہی ہے جس سے سنت اٹھتی ہو جیسا کہ بعض لوگوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اوررسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے عداوت رکھنے کی بری بدعت نکالی جس کی وجہ سے صحابہ ٔکرام اور اہلِ بیت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ محبت اورنیاز مندی کا طریقہ اٹھ گیا حالانکہ شریعت میں ا س کا تاکیدی حکم ہے ۔کچھ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقبول بندوں جیسے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی شان میں بے ادبی اورگستاخی کرنے اور تمام مسلمانوں کو مشرک قرار دینے کی بد ترین بدعت نکالی ، اس سے بزرگانِ دین کی حرمت ، عزت ، ادب و تکریم اور مسلمانوں کے ساتھ اَخُوَّت اور محبت کی سنتیں اٹھ جاتی ہیں حالانکہ ان کی بہت شدید تاکید یں ہیں اور یہ دین میں بہت ضروری چیزیں ہیں ۔( خزائن العرفان، یس، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۸۱۵، ملخصاً)
آیت کی تفسیر میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی وہ نشانیاں اوروہ طریقے بھی لکھ رہاہے جو وہ اپنے بعد چھوڑ گیاخواہ وہ طریقے نیک ہوں یا برے،اس مناسبت سے یہاں ہم انسان کے ان اچھے اور برے اعمال کی پانچ پانچ عام مثالیں دیتے ہیں جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں اور یہ لوگوں کے مشاہدے میں بھی ہیں ،چنانچہ اچھے اعمال کی پانچ مثالیں یہ ہیں :
(1)… کوئی شخص دین کا علم پڑھاتا ہے ،پھر ا س کے شاگرد اپنے استاد کی وفات کے بعد بھی ا س علم کی اشاعت کرتے رہتے ہیں ۔
(2)… کوئی شخص دینی مدرسہ بنا دیتا ہے جس میں طلباء علمِ دین پڑھتے ہیں اور بانی کی وفات کے بعد بھی طلباء دین کا علم حاصل کرتے رہتے ہیں ۔
(3)…کوئی انسان کسی دینی موضوع پر کتاب تصنیف کرتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد بھی اس کتاب کی اشاعت ہوتی رہتی ہے ۔
(4)…کوئی شخص مسجد بنادیتا ہے جس میں لوگ نماز پڑھتے ہیں اور یہ سلسلہ اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔
(5)…کوئی شخص کنواں کھدوا کر یا بورنگ کروا کر لوگوں کے لئے پانی کا انتظام کر دیتا ہے اور لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی پانی حاصل کرتے رہتے ہیں ۔
برے اعمال کی5 مثالیں یہ ہیں ،
(1)… کوئی شخص فلم اسٹوڈیو،سینما گھر،ویڈیو شاپ یا میوزک ہاؤس بنا تا ہے جس میں اس کے مرنے کے بعد بھی فلمیں بنانے ،دکھانے،بیچنے ، میوزک تیار کرنے اور سننے سنانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔
(2)…کوئی شراب خانہ یا قحبہ خانہ بناتا ہے اور عورتوں کو بدکاری کے لئے تیار کرتا ہے جہاں لوگ شرابیں پیتے اور بدکاری کرتے ہیں ،پھر ا س کے مرنے کے بعد بھی وہ شراب اور بدکاری کے اڈے قائم رہتے ہیں ، ان میں لوگ شرابیں پیتے رہتے اور بدکاری ہوتی رہتی ہے اور اس کی تیار کردہ عورتیں بدکاری کرواتی رہتی ہیں ۔
(3)…انٹر نیٹ پر فحش ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پر فحاشی ، عُریانی اور بے حیائی کی اشاعت کے لئے پیج بناتا ہے،پھر اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ انہیں دیکھتے رہتے اور گناہ میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں ۔
(4)… کوئی انسان جُوا خانہ بنا کر مر جاتا ہے جس میں اس کے مرنے کے بعد بھی جوئے اور سٹے بازی چلتی رہتی ہے۔
(5)… کوئی شخص ایسے قوانین بناتا ہے جو ظلم اور نا انصافی پر مشتمل ہوں اور لوگوں کے درمیان شر اور فساد کی بنیادیں کھڑی کرتا ہے،پھر اس کے مرنے کے بعد بھی ان قوانین پر عمل ہوتا رہتا ہے اور لوگوں میں شر وفساد جاری رہتا ہے ۔
ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس حدیث پاک کو ایک بار پھر پڑھیں ،چنانچہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص نے اسلام میں نیک طریقہ نکالا اس کو طریقہ نکالنے کا بھی ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی ثواب ملے گااور عمل کرنے والوں کے اپنے ثواب میں کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس نے اسلام میں برا طریقہ نکالا تو اس پر وہ طریقہ نکالنے کا بھی گناہ ہو گااور اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا بھی گناہ ہو گا اور ان عمل کرنے والوں کے اپنے گناہ میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحثّ علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ۔۔۔ الخ، ص۵۰۸، الحدیث: ۶۹(۱۰۱۷))
اس میں جاری رہنے والے نیک اعمال کرنے والوں کے لئے تو ثواب کی بشارت ہے اور ان لوگوں کے لئے وعید ہے جو جاری رہنے والے گناہوں کا سلسلہ شروع کئے ہوئے ہیں ،یہ اپنے انجام پر خود ہی غور کر لیں کہ جب اپنے گناہوں کے ساتھ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ ان کے کندھے پر بھی ہو گا اور اپنے گناہوں کے عذاب کے ساتھ ساتھ دوسروں کے گناہ کا عذاب بھی پائیں گے تو ان کا کیا حال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور گناہِ جاریہ کے جاری سلسلے ختم کر کے سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اس آیت کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ آثار سے مراد وہ قدم ہیں جو نمازی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد کی طرف چلنے میں رکھتا ہے اور اس معنی پر آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ بنی سلمہ مدینہ طیبہ کے کنارے پر رہتے تھے، انہوں نے چاہا کہ مسجد شریف کے قریب رہائش اختیار کر لیں ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے قدم لکھے جاتے ہیں ،اس لئے تم مکان تبدیل نہ کرو،یعنی جتنی دور سے آؤ گے اتنے ہی قدم زیادہ پڑیں گے اور اجر و ثواب زیادہ ہو گا۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ یس، ۵ / ۱۵۴، الحدیث: ۳۲۳۷)
اس سے معلوم ہو اکہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے جو بندہ مسجد کی طرف چل کرجاتا ہے اسے ہر قدم پر ثواب دیا جاتا ہے اور جو زیادہ دور سے چل کر آئے گا اس کا ثواب بھی زیادہ ہو گا،ترغیب کے لئے یہاں اس سے متعلق مزید 3 اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب آدمی اچھی طرح وضو کرے ،پھر مسجد کی طرف نکلے اور اسے (گھر وغیرہ سے مسجد کی طرف جانے کے لئے) نماز نے نکالا ہو تو جو قدم بھی وہ رکھتا ہے ا س کے بدلے ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔(بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، ۱ / ۲۳۳، الحدیث: ۶۴۷)
(2)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگوں میں سب سے زیادہ نماز کا اجر اس شخص کو ملتا ہے جو سب سے زیادہ دور سے نماز پڑھنے آئے،اس کے بعد اسے اجر ملتا ہے جواس کے بعد دور سے آنے والا ہو۔( مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل کثرۃ الخطا الی المساجد، ص۳۳۴، الحدیث: ۲۷۷(۲۶۲))
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص مسجد سے جتنا زیادہ دور ہے اسے (جماعت میں شامل ہونے کے باعث) اتنا ہی زیادہ ثواب ملتا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل المشی الی الصلاۃ، ۱ / ۲۳۱، الحدیث: ۵۵۶)
یہاں باجماعت نماز پڑھنے کے لئے دور سے چل کر آنے میں صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے جذبے کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ
حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کا گھر مسجد ِنَبوی سے سب سے زیادہ دور تھا اور ا س کی نماز کبھی قضانہیں ہوتی تھی،میں نے اسے مشورہ دیا کہ دراز گوش خرید لو جس پر سوار ہو کر دھوپ اور اندھیرے میں آسانی سے (مسجد تک) آ سکو۔اس نے کہا:اگر میرا گھر مسجد ِنَبوی کے پہلو میں ہوتا تو یہ میرے لئے کوئی خوشی کی بات نہ تھی ،میری نیت یہ ہے کہ میرے لئے گھر سے مسجد تک آنے اور مسجد سے اپنے اہلِ خانہ کی طرف لوٹنے کا ثواب لکھا جائے۔ (جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کی یہ بات معلوم ہوئی تو) حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اس سے) ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے یہ تمام (ثواب) تمہارے لئے جمع کر دیا۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل کثرۃ الخطا الی المساجد، ص۳۳۴، الحدیث: ۲۷۸(۲۶۳))
اس سے معلوم ہو اکہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی نیتیں مبارک اورجذبات مقدس ہوتے اور وہ نیکیاں جمع کرنے کے انتہائی حریص ہو اکرتے تھے اورچونکہ نماز کے لئے آنے اور جانے میں ہر قدم پر نیکی ملتی ہے، اس لئے وہ زیادہ نیکیاں جمع کرنے کے لئے مسجد سے دور بسنے کا ارادہ کرتے اور پھر بر وقت جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا پورا اہتمام بھی کرتے تھے ۔ افسوس! فی زمانہ لوگوں کا حال اور اندازِ فکر ہی بدل چکا ہے کہ گھر قریب ہونے کے باجود جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آنا ان کے لئے تکلیف دِہ ہے ،مسجد سے دور گھر ا س لئے لیتے ہیں تا کہ شرعی طور پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ان پر واجب نہ رہے اور بسا اوقات ان کا حال یہ ہو جاتا ہے کہ جماعت تو رہی ایک طرف نمازبھی ضائع کرنے لگ جاتے ہیں ،یہ تو عوام کا حال ہے اور ان سے زیادہ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ جماعت کا باقاعدہ اہتمام ان حضرات کے ہاں بھی مفقود ہوتا جا رہا ہے جو اپنے آپ کو دین کا ستون سمجھے بیٹھے ہیں ،البتہ جو شرعاً معذورہیں ان پر کوئی حکم نہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچی ہدایت اور نیکیاں جمع کرنے کی حرص نصیب فرمائے،اٰمین۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :اگر اللہ تعالیٰ انسان کے نشانِ قدم میں سے کچھ چھوڑتا تو اسے چھوڑ دیتا جسے ہوائیں مٹا دیتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انسان کے اس نشانِ قدم اور ا س کے ہر عمل کا شمار رکھتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس نشانِ قدم کو بھی شمار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اٹھا اور اسے بھی جو مَعْصِیَت میں چلا، تواے لوگو! تم میں سے جو ا س چیز کی طاقت رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اس کے قد م لکھے جائیں تو وہ ایسا کرے۔(در منثور، یس، تحت الآیۃ: ۱۳، ۷ / ۴۷)
اس سے معلوم ہوا کہ بندہ جس نیک کام کے لئے بھی قدم اٹھاتا ہے اس کا وہ قدم شمار کیا جاتا ہے اور اسے ان قدموں کے حساب سے ثواب دیا جائے گا،اسی مناسبت سے یہاں بطورِ خاص مریض کی عیادت کے لئے جانے اور کسی مسلمان سے ملاقات کیلئے جانے کے فضائل ملاحظہ ہوں کہ یہ قدم بھی اطاعت ِ الٰہی میں شمار کئے جاتے ہیں ۔
(1)… حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ (اس کے پاس سے) لوٹ آنے تک جنت کے باغ میں رہتا ہے۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب فضل عیادۃ المریض، ص۱۳۸۹، الحدیث: ۴۱(۲۵۶۸))
(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جو مسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرے توستر ہزار فرشتے اسے شام تک دعائیں دیتے ہیں اورجو شام کے وقت عیادت کرے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اسے دعائیں دیتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں باغ ہوگا۔(ترمذی، کتاب الجنائز عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی عیادۃ المریض، ۲ / ۲۹۰، الحدیث: ۹۷۱)
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی مریض کی عیادت کرتاہے یا اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے کسی مسلمان بھائی سے ملنے جاتاہے تو ایک مُنادی اسے مُخاطَب کرکے کہتاہے :خوش ہو جا کیونکہ تیرا یہ چلنا مبارک ہے اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے۔( ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی زیارۃ الاخوان، ۳ / ۴۰۵، الحدیث: ۲۰۱۵)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک شخص کسی شہر میں اپنے کسی بھائی سے ملنے گیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ اس کے راستے میں بھیجا ،جب وہ فرشتہ اس کے پاس پہنچا تو اس سے پوچھا:کہاں کا ارادہ ہے؟اس نے کہا:اس شہرمیں میرا ایک بھائی رہتاہے اس سے ملنے جا رہا ہوں ۔اس فرشتے نے پوچھا:کیا اس کا تجھ پر کوئی احسان ہے جسے اتارنے جارہاہے؟ اس شخص نے کہا:نہیں !بلکہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے اس سے محبت کرتاہوں ۔فرشتے نے کہا:مجھے اللہ تعالیٰ نے تیرے پاس بھیجا ہے تاکہ تجھے بتادوں کہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے اسی طرح محبت فرماتا ہے جس طرح تو اس کے لئے دوسروں سے محبت کرتا ہے۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب فی فضل الحبّ فی اللّٰہ، ص۱۳۸۸، الحدیث: ۳۸(۲۵۶۷))
اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمان مریضوں کی عیادت کے لئے جانے اور اپنی رضا کے لئے مسلمان بھائیوں سے ملنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔