ترجمہ: کنزالایمان
اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کو چاہے تو اس سے فرمائے ہو جا وہ فوراً ہوجاتی ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے فرماتا ہے ، ’’ ہو جا‘‘ تو وہ ہوجاتی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗ: اس کا کام تو یہی ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی شان تویہ ہے کہ وہ جب کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ
فرماتا ہے تو اس سے فرماتا ہے ، ’’ ہو جا‘‘ تو وہ ہوجاتی ہے یعنی مخلوقات کا وجود
اس کے حکم کے تابع ہے اور جب خدا کسی چیز کو وجود میں آنے کاحکم فرماتا ہے
تو اسے لوگوں کی طرح مختلف اَشیاء کی حاجت نہیں ہوتی بلکہ خدا کے حکم
پر ہر چیز امر ِالٰہی کے مطابق وجود میں آجاتی ہے ۔
سورت کا تعارف
سورۂیٰسٓ کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ یٰسٓ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی
ہے۔(خازن، سورۃ یس، ۴ / ۲)
رکوع اورآیات کی تعداد:
اس میں 5رکوع اور 83 آیتیں
ہیں ۔
’’یٰسٓ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
یٰسٓ حروفِ مُقَطَّعات میں سے
ہے ، اور چونکہ ا س سورت کی پہلی آیت میں لفظ ’’یٰسٓ‘‘ ہے اس وجہ سے اس سورت کا نام ’’سورۂیٰسٓ‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ یٰسٓکے فضائل:
اَحادیث میں سورۂیٰسٓ کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 4فضائل درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،سرکارِ دو
عالَمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ہر چیز
کے لئے قلب ہے اور قرآن کا قلب سورۂیٰسٓ ہے اور جس نے سورۂ یٰسٓ پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس بار قرآن پڑھنے کا ثواب لکھتا ہے۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل
یس، ۴ /
۴۰۶،
الحدیث: ۲۸۹۶)
(2)…حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہصَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ جو اللہ تعالیٰ
کی رضا کے لیے سورۂ یٰسٓ پڑھے گا تو اس کے گزشتہ
گناہ بخش دیئے جائیں گے لہٰذا اسے مرنے والے کے پاس پڑھا کرو۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
فصل فی فضائل السور والآیات، ۲ / ۴۷۹، الحدیث: ۲۴۵۸)
(3)…حضرت عطاء بن ابی
رباح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : ’’مجھے خبر
ملی ہے کہ حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جو دن
کے شروع میں سورۂ یٰسٓ پڑھ لے تو اس کی تمام
ضرورتیں پوری ہوں گی۔( دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فی فضل یس، ۲ /
۵۴۹،
الحدیث: ۳۴۱۸)
(4)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضورِ اقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ جو
شخص ہر رات سورۂیٰسٓ پڑھنے پر ہمیشگی اختیار
کرے،پھر وہ مر جائے تو شہادت کی موت مرے گا۔(معجم
الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۵ / ۱۸۸، الحدیث: ۷۰۱۸)
مضامین
سورۂیٰسٓکے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون
یہ ہے کہ ا س میں قرآنِ پاک کی عظمت،اللہ
تعالیٰ کی قدرت و و حدانیّت، تاجدارِ رسالتصَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے منصب اورقیامت میں مُردوں کو زندہ کئے جانے کو بیان کیاگیا ہے
اوراس میں یہ چیزیں بیان ہوئی ہیں :
(1)…اس سورت کی ابتداء
میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی قسم
کھاکر فرمایا کہ نبیٔ اکرمصَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسب جہانوں کوپالنے والے
رب تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اور ان کی رسالت سے لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے،ایک
گروہ عناد اور دشمنی کرنے والا جس کے ایمان لانے کی امید نہیں اور دوسرا گروہ وہ
ہے جس کے لئے خیر اور ہدایت حاصل ہونے کی توقُّع ہے،ان دونوں گروہوں کے اعمال
محفوظ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قدیم اور اَزلی
علم میں ان کے آثار موجود ہیں۔
(2)…ایک بستی انطاکیہ کے
لوگوں کی مثال بیان کی گئی کہ جنہوں نے یکے بعد دیگرے رسولوں کو جھٹلایا اور ان کا
مذاق اڑایا اور جوا نہیں رسولوں کوجھٹلانے پر نصیحت کرنے آیا تو ان لوگوں نے اسے
شہید کر دیا۔نصیحت کرنے والا تو جنت میں داخل ہوا اور اسے شہید کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور وہ جہنم میں داخل ہوئے۔
(3)…کفارِ مکہ کو سابقہ
امتوں کی ہلاکت کے بارے میں بتا کر ا س بات سے ڈرایا گیا کہ اگر انہوں نے بھی
سابقہ کفار جیسی رَوِش نہ چھوڑی تو ان پر بھی عذاب نازل ہو سکتا ہے۔
(4)…مُردوں کو دوبارہ
زندہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ا س
کی و حدانیّت پر بنجر زمین کو سرسبز کرنے،رات اور دن کے آنے جانے،سورج اور چاند
کو مُسَخّر کئے جانے اور سمندروں میں کشتیوں کے چلنے سے اِستدلال کیا گیا اور ان
حقائق کا انکار کرنے والے کافروں کو دنیا و آخرت میں عذاب کی وعید سنائی گئی ۔
(5)…اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے شاعر ہونے کی نفی کی
اور یہ بتایا کہ وہ تو قرآن کے ذریعے اللہ تعالیٰ
کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں اور اس بات کی خبر دینے والے ہیں کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا چاہئے۔
سورۂیٰسٓ کی اپنے سے ماقبل سورت’’فاطر‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ فاطر
میں بیان ہوا کہ کفارِ مکہ نبیٔ کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے منہ موڑتے اور انہیں جھٹلاتے ہیں اور سورۂیٰسٓ کی ابتداء میں قرآن کی قسم ذکر فرما کر
ارشاد ہوا کہ نبیٔ کریمصَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ،صراطِ مستقیم پر ہیں اور یہ اس قوم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں جن کے آباؤ اَجداد کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا جا چکا ہے۔(تناسق
الدرر، سورۃ یس، ص۱۱۳)