banner image

Home ur Surah Yunus ayat 102 Translation Tafsir

يُوْنُس

Yunus

HR Background

فَهَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْؕ-قُلْ فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(102)ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَۚ-حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِیْنَ(103)

ترجمہ: کنزالایمان تو انہیں کاہے کا انتظار ہے مگر انہیں لوگوں کے سے دنوں کا جو ان سے پہلے ہو گزرے تم فرماؤ تو انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔ پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے بات یہی ہے ہمارے ذمہ کرم پر حق ہے مسلمانوں کو نجات دینا۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو انہیں ان لوگوں کے دنوں جیسے (دنوں ) کا انتظار ہے جو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ تم فرماؤ: تو انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں ۔ پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے۔ہم پر اسی طرح حق ہے کہ ایمان والوں کو نجات دیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَهَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ:تو انہیں ان لوگوں کے دنوں جیسے (دنوں ) کا انتظار ہے جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔} آیت کا معنی یہ ہے کہ ان لوگوں کا طرزِ عمل یہ بتاتا ہے کہ گویایہ لوگ گزشتہ اُمتوں کے دنوں جیسے دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے زمانوں میں کفار کو اُن دنوں کے آنے سے ڈراتے تھے جن میں مختلف قسم کے عذاب نازل ہوں جبکہ کفار اسے جھٹلاتے اور مذاق اڑاتے ہوئے عذاب نازل ہونے کی جلدی مچاتے تھے اسی طرح نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے کفار بھی انہی کی رَوِش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا : آپ ان سے فرما دیں کہ تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۳۰۷)

{ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے۔} حضرت ربیع بن انس  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ عذاب کا خوف دلانے کے بعد اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ جب عذاب واقع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ رسول کو اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرماتا ہے۔ (تفسیر طبری، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۶۱۷)