banner image

Home ur Surah Yunus ayat 19 Translation Tafsir

يُوْنُس

Yunus

HR Background

وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْاؕ-وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(19)

ترجمہ: کنزالایمان اور لوگ ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوئے اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی تو یہیں ان کے اختلافوں کا ان پر فیصلہ ہوگیا ہوتا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور سب لوگ ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوگئے اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان ان کے باہمی اختلافات کا فیصلہ ہوگیا ہوتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً:اورسب لوگ ایک ہی اُمت تھے۔} یعنی سب لوگ ایک دین اسلام پر تھے جیسا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں قابیل کے ہابیل کو قتل کرنے کے وقت تک حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی ذُرِّیَّت ایک ہی دین پر تھے، اس کے بعد ان میں اختلاف ہوا ۔

مذہبی اختلاف کی ابتداء کب ہوئی؟

اس مذہبی اختلاف کی ابتداء سے متعلق مفسرین نے کئی قول ذکر کئے ہیں

ایک قول یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ تک لوگ ایک دین پر رہے پھر ان میں اختلاف واقع ہوا تو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی طرف مبعوث فرمائے گئے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کشتی سے اترنے کے وقت سب لوگ ایک دین اسلام پر تھے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے سے سب لوگ ایک دین پر تھے یہاں تک کہ عمرو بن لُحَی نے دین میں تبدیلی کی، اس قول کے مطابق ’’اَلنَّاسُ‘‘ سے مراد خاص عرب ہوں گے۔

بعض علماء نے کہا کہ معنی یہ ہیں کہ لوگ پہلی مرتبہ پیدائش کے وقت فطرتِ سلیمہ پر تھے پھر ان میں اختلافات ہوئے۔ حدیث شریف میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بناتے ہیں یا نصرانی بناتے ہیں یا مجوسی بناتے ہیں اور حدیث میں فطرت سے فطرتِ اسلام مراد ہے۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما قیل فی اولاد المشرکین، ۱ / ۴۶۶، الحدیث: ۱۳۸۵، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۰۷)بظاہر پہلا قول ہی درست ہے۔

{وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ:اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی کہ کفار کو مُہلت دی جائے گی اور ہر اُمت کے لئے ایک میعاد مُعَیّن نہ کردی گئی ہوتی یا اَعمال کی جزاء قیامت تک مُؤخّر نہ فرمائی گئی ہوتی  تودنیا میں ہی ان کے درمیان ان کے باہمی اختلافات کا نُزولِ عذاب سے فیصلہ ہوگیا ہوتا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۰۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۶۷، ملتقطاً)