banner image

Home ur Surah Yunus ayat 20 Translation Tafsir

يُوْنُس

Yunus

HR Background

وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖۚ-فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْاۚ-اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(20)

ترجمہ: کنزالایمان اور کہتے ہیں ان پر ان کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری تم فرماؤ غیب تو اللہ کے لیے ہے اب راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ راہ دیکھ رہا ہوں۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور کہتے ہیں ، اس نبی پر ان کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اترتی ؟ تم فرماؤ: غیب تو صرف اللہ کے لیے ہے، تو تم انتظار کرو بیشک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کررہاہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَقُوْلُوْنَ:اور کہتے ہیں۔}اہلِ باطل کا طریقہ ہے کہ جب ان کے خلاف مضبوط دلیل قائم ہوتی ہے اور وہ جواب دینے سے عاجز ہوجاتے ہیں تو اس دلیل کا ذکر اس طرح چھوڑ دیتے ہیں جیسے کہ وہ پیش ہی نہیں ہوئی اور یوں کہتے ہیں کہ دلیل لاؤ ، تاکہ سننے والے اس مغالطہ میں پڑ جائیں کہ ان کے مقابلے میں اب تک کوئی دلیل ہی نہیں قائم کی گئی ۔ اس طرح کفار نے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات اور بالخصوص قرآنِ کریم جو کہ عظیم معجزہ ہے اس کی طرف سے آنکھیں بند کرکے یہ کہنا شروع کیا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟ گویا کہ معجزات انہوں نے دیکھے ہی نہیں اور قرآنِ پاک کو وہ نشانی شمار ہی نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ اس سوال کے وقت فرما دیجئے کہ غیب تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہے اب راستہ دیکھو ،میں بھی تمہارے ساتھ راہ دیکھ رہا ہوں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ دلالتِ قاہرہ اس پر قائم ہے کہ تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قرآنِ پاک کا نازل ہونا بہت ہی عظیم الشّان معجزہ ہے، کیونکہ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہی لوگوں میں پیدا ہوئے ، ان کے درمیان پلے بڑھے، حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام زمانے ان کی آنکھوں کے سامنے گزرے ،وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ نے نہ کسی کتاب کا مطالعہ کیا ، نہ کسی استاد کی شاگردی کی، یکبارگی قرآنِ کریم آپ پرظاہر ہوا اور ایسی بے مثال اعلیٰ ترین کتاب کا ایسی شان کے ساتھ نُزول بغیر وحی کے ممکن ہی نہیں ،یہ قرآنِ کریم کے معجزئہ قاہرہ ہونے کی دلیل ہے اور جب ایسی مضبوط دلیل قائم ہے تو اِثباتِ نبوت کے لئے کسی دوسری نشانی کا طلب کرنا قطعاً غیر ضروری ہے، ایسی حالت میں اس نشانی کا نازل کرنا، نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر ہے، چاہے کرے ، چاہے نہ کرے تو یہ امر غیب ہوا اور اس کے لئے انتظار لازم آیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کیا کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ یہ غیر ضروری نشانی جو کفار نے طلب کی ہے نازل فرمائے یا نہ فرمائے (اس کی مرضی لیکن بہرحال) نبوت توثابت ہوچکی اور رسالت کا ثبوت قاہر معجزات سے اپنے کمال کو پہنچ چکا۔ (تفسیرکبیر، یونس تحت الآیۃ: ۲۰، ۶ / ۲۳۰، ملخصاً)

دلیل کاجواب دینے سے عاجز ہونے پر لوگوں کو مغالطے میں ڈالنا اہلِ باطل کا ایک طریقہ ہے:

اس آیت میں اہلِ باطل کا جو طریقہ بیان ہوا ا س کی کچھ جھلک بعض اوقات ان افراد میں بھی نظر آتی ہے جو خود کو اہلِ علم مسلمانوں میں شمار کرنے کے باوجود مسلمانوں کے عقائد و نظریات پر انتہائی شاطرانہ طریقے سے وار کرتے ہیں اور مسلمانوں کے دین و ایمان کو برباد کرنے اور انہیں کفر و گمراہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب خوفِ خدا رکھنے اور مسلمانوں کے دین و ایمان کے تحفظ کی فکر کرنے والے علماء کی طرف سے ان کی علمی گرفت کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر لوگوں کی نظروں میں اس کی وقعت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس گرفت کی کوئی ایسی اہمیت نہیں جس کا جواب دے کر اپنا قیمتی وقت ضائع کیا جائے۔ اے کاش! یہ اس بات پر غور کر لیں کہ علم کے باوجود ان کا مسلمانوں کے مُسلَّمہ عقائد و نظریات سے جدا راستے پر چلنا کہیں ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر تو نہیں۔