banner image

Home ur Surah Yunus ayat 21 Translation Tafsir

يُوْنُس

Yunus

HR Background

وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَاؕ-قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًاؕ-اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ(21)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب کہ ہم آدمیوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں کسی تکلیف کے بعد جو انہیں پہنچی تھی جبھی وہ ہماری آیتوں کے ساتھ دانؤں چلتے ہیں تم فرمادو اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے جلد ہوجاتی ہے بیشک ہمارے فرشتے تمہارے مکر لکھ رہے ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جب ہم لوگوں کو انہیں تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا مزہ دیتے ہیں تو اسی وقت ان کا کام ہماری آیتوں کے بارے میں سازش کرنا ہوجاتا ہے ۔ تم فرماؤ: اللہ سب سے جلد خفیہ تدبیرفرمانے والا ہے۔بیشک ہمارے فرشتے تمہارے مکروفریب کو لکھ رہے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً:اور جب ہم (کافر) لوگوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں۔} اس آیت میں کفار کے اس قول ’’اس (نبی) پر ان کے رب کی طرف سے کوئی (خاص قسم کی) نشانی کیوں نہیں اترتی ؟‘‘ کا ایک اور جواب دیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ا ہلِ مکہ پر اللہ تعالیٰ نے قحط مُسلط کیا جس کی مصیبت میں وہ سات برس گرفتار رہے یہاں تک کہ ہلاکت کے قریب پہنچے، پھر اس نے رحم فرمایا، بارش ہوئی، زمینیں سرسبز ہوئیں ، تو اگرچہ اس تکلیف و راحت دونوں میں قدرت کی نشانیاں تھیں اور تکلیف کے بعد راحت بڑی عظیم نعمت تھی اور اس پر شکر لازم تھا مگر انہوں نے اس سے نصیحت حاصل نہ کی اور فساد و کفر کی طرف پلٹ گئے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۸۶۱-۸۶۲، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۲ / ۳۰۸، ملتقطاً)

رحمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنااورآفت کو منسوب نہ کرنابارگاہِ الٰہی کا ایک ادب ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ رحمتوں کو اس کی طرف منسوب کیا جائے اور آفات کو اس کی جانب منسوب نہ کیا جائے اور یہی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا طرزِ عمل ہے ،جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کافروں سے کلام کے دوران جب اللہ تعالیٰ کی شان بیان فرمائی تو ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا : ’’وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ‘‘(شعراء:۸۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔

{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بہت جلد سزا دینے والا ہے اوران کی سازشوں کی گرفت پر بہت زیادہ قادر ہے اور اس کا عذاب دیر نہیں کرتا۔ اور ارشاد فرمایا کہ بیشک ہمارے فرشتے تمہارے مکر و فریب کو لکھ رہے ہیں اور تمہاری خُفیہ تدبیریں کاتب ِ اعمال فرشتوں پر بھی مخفی نہیں ہیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ علیم و خبیر سے کیسے چھپ سکتی ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۲ / ۳۰۸، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۴۶۸، ملتقطاً)

کافروں پر بھی کِرامًا کاتبین فرشتے مقرر ہیں :

            اس سے معلوم ہو ا کہ کِرَامًا کَاتِبِینْ اعمالِ کفار پر بھی مقرر ہیں جو ان کے ہر قول و عمل کو لکھتے ہیں۔ البتہ گناہ لکھنے والا فرشتہ تو لکھتا رہتا ہے اور نیکیاں لکھنے والا فرشتہ اس پر گواہ رہتا ہے وہ کچھ نہیں لکھتا کیونکہ ان کی نیکی نیکی نہیں۔ (تفسیر روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۳۰)