banner image

Home ur Surah Yunus ayat 48 Translation Tafsir

يُوْنُس

Yunus

HR Background

وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(48)قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ-لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌؕ-اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(49)

ترجمہ: کنزالایمان اور کہتے ہیں یہ وعدہ کب آئے گا اگر تم سچے ہو۔ تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کاذاتی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے ہر گروہ کا ایک وعدہ ہے جب ان کا وعدہ آئے گا تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹیں نہ آگے بڑھیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب آئے گا ۔ تم فرماؤ میں اپنی جان کیلئے نقصان اور نفع کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے۔ ہر گروہ کے لئے ایک مدت ہے تو جب وہ مدت آجائے گی تووہ لوگ ایک گھڑی نہ تو اس سے پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے ہوسکیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَقُوْلُوْنَ:اور کہتے ہیں۔} جب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو عذاب نازل ہونے سے ڈرایا اور ایک عرصہ گزرنے کے باوجود عذاب نہ آیا تو اس وقت کفار نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو یہ عذاب کاوعدہ کب آئے گا۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۴۸، ۶ / ۲۶۲)

{قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ:تم فرماؤ! میں اپنی جان کیلئے نقصان اور نفع کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے۔}اس آیت میں کفار کے اس قول ’’اگر تم سچے ہو تو یہ  وعدہ کب آئے گا ‘‘ کا جواب دیا گیا ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دشمنوں پر عذاب نازل کرنے اور دوستوں کے لئے مدد ظاہر کرنے کی قدرت اور اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ اور وعید کو پورا کرنے کا ایک وقت مُعیّن کر دیا ہے اور اس وقت کاتَعَیُّن اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر مَوقوف ہے اور جب وہ وقت آ جائے گا تو وہ وعدہ بہرصورت پورا ہوگا۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۲۶۲)

اس آیت میں جو یہ فرمایا گیا کہ اے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ فرما دیں کہ’’میں اپنی جان کیلئے نقصان اور نفع کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قادر کئے بغیر میں اپنی جان پر بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتاالبتہ اللہ تعالیٰ جس چیز کا چاہے مجھے مالک و قادر بنا دیتا ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۳۱۸)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نفع و نقصان کا اختیار ملا ہے:

            بکثرت آیات اور اَحادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفع و نقصان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قدرت اور اختیار میں دیا ہے جیسے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ‘‘(التوبہ:۷۴)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔

اس سے معلوم ہو اکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی لوگوں کو غنی اور مالدار بناتے ہیں اور دوسروں کو غنی وہی کر سکتا ہے جسے غنی کرنے کی قدرت اور اختیار حاصل ہو۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۙ-وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ‘‘(توبہ:۵۹)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:اور (کیا اچھا ہوتا) اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ اور اس کا رسول ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں۔

اس سے معلوم ہو اکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دیا بھی ہے اور دیں گے بھی اور دیتا وہی ہے جس کے پاس خود ہو۔

صحیح بخاری میں ہے، دو عالَم کے مالک و مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ‘‘ بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ عطا کرتا ہے۔(بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیراً یفقّہہ فی الدین، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۷۱)

اس سے معلوم ہو اکہ جو چیز جب بھی جس کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے وہ حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تقسیم سے ہی ملتی ہے اور اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کے دینے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تقسیم فرمانے کو کسی قید کے بغیر بیان فرمایا گیا ہے کہ نہ زمانے کی قید ہے، نہ چیز اور نہ لینے والے کی قید ہے،اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دینا کسی زمانے، چیز اور لینے والے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے میں سے ہر زمانے میں ، جو چیز، جسے جو چاہیں عطا فرتے ہیں۔

نیز بکثرت اَحادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے دینِ اسلام کو دل سے ماننے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں کو نفع پہنچایا ہے اور آئندہ بھی پہنچائیں گے ، جیسے حضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جنت عطا فرمانا، حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تھوڑے سے آٹے اور گوشت میں لعابِ دہن ڈال کر سینکڑوں لوگوں کو کھلا دینا، غزوۂ بدر میں حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ زخمی ہونے پر اسے صحیح کر دینا، غزوۂ اُحد کے موقع پر حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تیر لگنے سے آنکھ نکل جانے پر ان کی آنکھ درست کر دینا، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے لئے سورج کو واپس لوٹا کر گئے ہوئے دن کو عصر کردینا ، غزوۂ خیبر کے موقع پر آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ہونے والی آشوبِ چشم کی بیماری دور کردینا، ایک غزوے کے موقع پر 1500 صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر کے سیراب کر دینا، اسی طرح وصالِ ظاہری کے بعد حضرتِ بلال بن حارث مزنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزارِ اقدس پر حاضر ہو کر بارش کی دعا کرنے کی عرض پر بارش ہونے کی خوشخبری دینا، مزارِ اقدس پر حاضر ہو کر مغفرت طلب کرنے والے اَعرابی کو مغفرت ہو جانے کی بشارت دینا، قیامت کے انتہائی سخت لمحات میں اُمتوں کا حساب شروع کروا کر اَوّلین و آخرین تمام انسانوں ، جنوں اور حیوانوں کی مدد کرنا، گنہگار امتیوں کی شفاعت کرنا، حوضِ کوثر پر پیاسے اُمتیوں کو سیراب کرنا، میزانِ عمل پر گنہگار اُمتیوں کے اَعمال کے وزن کو بڑھانا اورپل صراط پر کھڑے ہو کر اپنے امتیوں کی سلامتی کی دعائیں مانگنا، یہ سب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نفع پہنچانے کی واضح مثالیں ہیں ، اور جس طرح آپ نے دینِ اسلام کے حامیوں کو نفع پہنچایا ہے اسی طرح اسلام کے دشمنوں کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔