banner image

Home ur Surah Yunus ayat 57 Translation Tafsir

يُوْنُس

Yunus

HR Background

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(57)

ترجمہ: کنزالایمان اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی اور دلوں کی صحت اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لیے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا اور مومنوں کیلئے ہدایت اور رحمت آگئی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:اے لوگو!۔} اس آیت میں قرآنِ کریم کے آنے اور اس کے نصیحت، شفا،ہدایت ا ور رحمت ہونے کا بیان ہے کہ یہ کتاب اُن فوائدِ عظیمہ کی جامع ہے۔

قرآنِ مجید کے عظیم فوائد :

            اس آیت میں قرآنِ کریم کے تین عظیم فائدے بیان کئے گئے

(1)… ’’ مَوْعِظَةٌ ‘‘اس کے معنی ہیں وہ چیز جو انسان کو پسندیدہ چیزکی طرف بلائے اور خطرے سے بچائے ۔ خلیل نے کہا کہ ’’ مَوْعِظَةٌ ‘‘نیکی کی نصیحت کرنا ہے جس سے دل میں نرمی پیدا ہو۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۳۲۰)

             تفسیر جمل میں ہے کہ ’’ مَوْعِظَةٌ‘‘ کا معنی ہے وعظ و نصیحت یعنی مُکَلَّف کے سامنے نیک اعمال جو کہ اس کیلئے فائدہ مند ہیں اور برے اعمال جو کہ اس کے لئے نقصان دِہ ہیں بیان کر کے اسے نصیحت کرنا اسی طرح اچھے عمل کرنے کی ترغیب دینا اور برے اعمال کے انجام سے ڈرانا بھی اس میں داخل ہے۔ (جمل، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۳۷۲) اور قرآنِ کریم سے یہ فائدہ انتہائی احسن طریقے سے حاصل ہوتاہے۔

(2)…شفاء :اس سے مراد یہ ہے کہ قرآنِ پاک قلبی اَمراض کودور کرتا ہے، دل کے امراض سے مراد مَذموم اَخلاق ، فاسد عقائد اور مُہلِک جہالتیں ہیں ، قرآنِ پاک ان تمام اَمراض کو دور کرتا ہے۔

(3)…قرآنِ کریم کی صفت میں ہدایت بھی فرمایا ،کیونکہ وہ گمراہی سے بچاتا اور راہِ حق دکھاتا ہے اور ایمان والوں کے لئے رحمت اس لئے فرمایا کہ وہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۳۲۰، ملخصاً)

شریعت ،طریقت اور حقیقت کی طرف اشارہ:

            علامہ صاوی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ مَوْعِظَةٌ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ نفع دینے والی چیزوں یعنی اچھے اعمال کی ہدایت اور نقصان دینے والی چیزوں یعنی برے اعمال سے ڈرانا۔’’ مِنْ رَّبِّكُمْ‘‘  ’’ مَوْعِظَةٌ ‘‘ کی صفت ہے اور ارشاد فرمایا ’’ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ‘‘ اس میں سینوں سے مراد دل ہیں اور معنی یہ ہے کہ قرآن وعظ و نصیحت کرنے والا ہے اورا سی کے ذریعے دلوں کے اَمراض یعنی کینہ ،حسد، بغض اور برے عقائد سے شفاء نصیب ہوتی ہے۔اور ارشاد فرمایا ’’وَهُدًى‘‘ یعنی نور جو کہ کامل مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے ذریعے وہ حق و باطل میں اِمتیاز کر لیتے ہیں۔ مزید فرماتے ہیں ’’اس آیت میں شریعت ، طریقت اور حقیقت تینوں کی طرف اشارہ ہے۔ شریعت کی طرف اشارہ آیت کے اس حصے’’مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ‘‘ میں ہے، کیونکہ شریعت سے ظاہری طہارت حاصل ہوتی ہے اور طریقت کی طرف اشارہ آیت کے اس حصے’’وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ‘‘ میں ہے کیونکہ طریقت باطن کو ہر نا مناسب چیز سے پاک کرتی ہے۔ جبکہ حقیقت کی طرف اشارہ آیت کے اس حصے ’’وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ میں ہے کیونکہ حقیقت ہی کے ذریعے دلوں میں ان اَنوار کی تجلیات پھیلتی ہیں جن کے ذریعے چیزیں اپنی حقیقت کے مطابق نظر آتی ہیں۔ جب دلوں میں ان انوار کی تجلیات آ جائیں تو پھر ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی قدرت دکھائی دیتی ہے اور ہر چیز علمِ ذوقی کے اعتبار سے اس کے قریب ہو جاتی ہے،خلاصہ یہ ہے کہ حقیقت طریقت کا ثمرہ ہے اور حقیقت، طریقت اور شریعت کو مضبوطی سے تھامنے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے ،اسی لئے کہا گیا ہے کہ حقیقت شریعت کے بغیر باطل ہے اور شریعت حقیقت کے بغیربیکار ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۸۷۶-۸۷۷)