Home ≫ ur ≫ Surah Yunus ≫ ayat 68 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗؕ-هُوَ الْغَنِیُّؕ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۭ بِهٰذَاؕ-اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(68)قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَﭤ(69)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا:(کافروں نے )کہا: اللہ نے اپنے لیے اولاد بنارکھی ہے ۔} کفار کا یہ کلمہ نہایت قبیح اور اِنتہا درجہ کے جہل کا حامل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مشرکین کے اس قول کے تین رد فرمائے ہیں ،
پہلا رد تو کلمہ ’’سُبْحٰنَهٗ ‘‘ میں ہے جس میں بتایا گیا کہ اس کی ذات اولاد سے منزہ و پاک ہے کہ وہ واحدِ حقیقی ہے۔
دوسرا رد ’’ هُوَ الْغَنِیُّ ‘‘ فرمانے میں ہے کہ وہ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے تو اولاد اس کے لئے کیسے ہوسکتی ہے؟ اولاد تو یا کمزور چاہتا ہے جو اس سے قوت حاصل کرے یا فقیر چاہتا ہے جوا س سے مدد لے یا کم عزت چاہتا ہے جو اس کے ذریعے سے عزت حاصل کرے ، الغرض جو چاہتا ہے وہ حاجت رکھتا ہے تو جو غنی ہو، بے نیاز ہو، کسی کا محتاج نہ ہو اس کے لئے اولاد کس طرح ہوسکتی ہے۔
تیسرا رد ’’لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ ‘‘ میں ہے کہ تمام مخلوق اس کی مملوک ہے اور مملوک ہونا بیٹا ہونے کے ساتھ نہیں جمع ہوتا لہٰذا ان میں سے کوئی اس کی اولاد نہیں ہوسکتا۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۴۷۹-۴۸۰)اسی سِیاق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے کافرو! تم جو اللہ تعالیٰ کیلئے اولاد قرار دیتے ہو اس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے برخلاف پر قطعی دلائل موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں بیان فرمائے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’بنی آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ یہ اس کے لئے جائز نہیں اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ بھی ا س کے لئے جائز نہیں ہے، اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے: جس طرح میں نے اسے پہلے پیدا کیا اسی طرح دوبارہ زندہ نہیں کروں گا حالانکہ پہلی دفعہ بنانا میرے لئے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے ، اور اس کا گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے: اللہ کا بیٹا بھی ہے، حالانکہ میں اکیلا ہوں ، بے نیاز ہوں ، نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی ایک بھی میری برابری کرنے والا نہیں ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ قل ہو اللہ احد، ۱-باب، ۳ / ۳۹۴، الحدیث: ۴۹۷۴)
نوٹ: یہاں حدیث پاک میں جو یہ فرمایا گیا ’’پہلی دفعہ بنانا میرے لئے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے‘‘یہ کلام بندوں کے اعتبار سے ہے اور مراد یہ ہے کہ بندوں کے نزدیک کسی چیز کو پہلی بار بنانا مشکل ہوتا ہے اور دوسری بار بنانا آسان جبکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے پہلی اور دوسری دونوں بار بنانا ایک جیسا ہے، تو جب لوگوں کے نزدیک جو چیز مشکل ہے یعنی پہلی بار بنانا وہ اللہ تعالیٰ نے کر دیا اور اس کا کافروں کو بھی اقرار ہے تو دوسری بار بنانے پر اس کی قدرت مانتے ہوئے کافروں کوکیا تکلیف ہے حالانکہ قیامت کے دن پہلے پیدا کر دی گئی مخلوق کو ہی دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا ہے کہ جولوگ اللہ تعالیٰ کیلئے اولاد کا دعویٰ کر کے اس پر جھوٹ باندھتے ہیں آپ انہیں تَنبیہ فرما دیں کہ ان کا انجام بہت برا ہوگا اور یہ لوگ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوں گے بلکہ ناکام و نامُراد ہوں گے، اگرچہ ان پر نعمتوں کی بہتات ہو لیکن انجامِ کار زوال ہی ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۸۸۳)