Home ≫ ur ≫ Surah Yunus ≫ ayat 71 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍۘ-اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُمْ مَّقَامِیْ وَ تَذْكِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَعَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَ شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ(71)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ:اور انہیں نوح کی خبر پڑھ کر سناؤ ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفارِ قریش کے اَحوال اور ان کے کفر و عناد کو بیان فرمایا اس کے بعد اب ان آیات سے اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات اور جو کچھ ان کی امتوں کے ساتھ پیش آیا اس کا بیان شروع فرمایا ہے، گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالاتِ زندگی بتاکر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا مقصود ہے تاکہ کفارِ قریش کی طرف سے پہنچنے والی اَذیت کی تکلیف آسان ہو نیز ان واقعات اور ماضی میں کفر کرنے والی امتوں پر آنے والے عذاب اور دنیا میں ان کی ہلاکت کا بیان کفارِ قریش کے لئے قلبی خوف کا سبب ہو اور وہ ایمان قبول کرنے کی طرف مائل ہوں اور چونکہ سب سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر ان کے کفر و سرکشی کی وجہ سے عذاب آیا اس لئے یہاں ان کا ذکر پہلے فرمایا گیا۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دیکھا کہ ان کا اپنی قوم کے درمیان مدتِ دراز تک ٹھہرنا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کرنا انہیں ناگوار گزراہے اوراس پر انہوں نے مجھے قتل کر دینے اور اپنے علاقے سے نکال دینے کا ارادہ کیا ہے تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی پر کامل بھروسہ ہے اور میں نے اپنے معاملات اسی کے سپرد کر دئیے ہیں ، تم میری مخالفت میں اور مجھے اِیذاء پہنچانے کیلئے جس قدر اَسباب جمع کر سکتے ہو کر لوبلکہ اپنے باطل معبودوں کو بھی ملا لو اور تمہاری یہ سازش پوشیدہ نہ رہے بلکہ علی الاعلان سب کچھ کرو، پھر میرے خلاف جو کچھ کرسکتے ہو کر گزرو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ کلام انہیں عاجز کر دینے کے طور پر تھا،مُدَّعا یہ ہے کہ مجھے اپنے قوی وقادر پروردگار عَزَّوَجَلَّ پر کامل بھروسہ ہے تم اور تمہارے بے اختیار معبود مجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۳۲۵-۳۲۶، ملخصاً)
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصر تعارف:
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دنیا میں چوتھے نبی اور پہلے رسول ہیں۔ آپ کا نام یَشْکُرْ اور لقب نوح ہے کیونکہ آپ خوفِ الٰہی سے نوحہ و گریہ بہت کرتے تھے۔ آپ آدمِ ثانی کہلاتے ہیں کیونکہ طوفانِ نوح کے بعد آپ ہی سے نسلِ انسانی چلی۔ قرآنِ پاک میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تبلیغ کے واقعات کو متعدد جگہ کافی تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے۔
آیت ’’ وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے پانچ چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نہایت شُجاع، بہادر ، جَری، باہمت اور اُولُواالعزم ہوتے ہیں ، جیسے یہاں ایک طرف پوری قوم دشمن اور مخالف ہے اور دوسری طرف تنِ تنہا صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بھروسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کس قدرت جرأت کے ساتھ مخالفین کو پکار رہے ہیں۔ اسی سے معلوم ہوا کہ قادیانی نبی نہیں تھا کیونکہ وہ انتہا درجے کا ڈرپوک تھا، ساری زندگی اسی ڈر سے حج کو نہ گیا اور جہاں جانے سے اسے نقصان پہنچنے کا خوف ہوتا تھا وہاں نہ جاتا تھا۔
(2)… لوگوں کی ایذاء کی وجہ سے تبلیغ سے کنارہ کشی نہیں کرنی چاہیے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تکالیف برداشت کرنے کے باوجود ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ فرمائی۔
(3)… تبلیغِ دین کیلئے جرأت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، بُزدل اور ڈرپوک آدمی تبلیغ کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
(4)…انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاءِ عِظام اور صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے سچے واقعات پڑھنا سننا عبادت ہے۔ اس لئے آیات ِ قرآنیہ کے ذریعے اور سیرت و واقعات کی کتابوں کے ذریعے بزرگانِ دین کی سیرت سے واقفیت حاصل کرتے رہنا چاہیے۔
(5)…یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخ کا علم بھی بہت عمدہ ہے کہ اس میں عبرت پوشیدہ ہوتی ہے البتہ تاریخ وہی پڑھی جائے جو حقائق پر مبنی ہو۔ آج کل ظالموں کو عادل، مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کو مجاہد اور اُمت کو تباہ کرنے والوں کو امت کا مُصلِح و مُحسن بنا کر پیش کرنا عام ہے۔ ایسی تاریخ سے دور رہنا ہی مناسب ہے۔