Home ≫ ur ≫ Surah Yunus ≫ ayat 83 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْؕ-وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِۚ-وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ(83)
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰى:تو موسیٰ پر ایمان نہ لائے۔} اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے، کیونکہ آپ لوگوں کے ایمان لانے کیلئے بہت کوشش فرماتے تھے اور لوگوں کے اِعراض کرنے کی وجہ سے مغموم ہوتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکین کے لئے فرمایا گیا کہ باوجودیکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اتنا بڑا معجزہ دکھایا پھر بھی تھوڑے لوگوں نے ایمان قبول کیا، ایسی حالتیں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیش آتی رہی ہیں ،آپ اپنی امت کے اِعراض سے رنجیدہ نہ ہوں۔
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں قوم کی ذُرِّیَّت سے کون لوگ مراد ہیں ؟
اس آیت میں قوم کی ذریت سے کون لوگ مراد ہیں ،اس بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں :
ایک قول یہ ہے کہ ’’مِنْ قَوْمِهٖ‘‘ میں جوضمیر ہے وہ تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طر ف لوٹ رہی ہے، اس صورت میں قوم کی ذریت سے بنی اسرائیل مراد ہوں گے جن کی اولاد مصر میں آپ کے ساتھ تھی اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو فرعون کے قتل سے بچ رہے تھے کیونکہ جب بنی اسرائیل کے لڑکے فرعون کے حکم سے قتل کئے جاتے تھے تو بنی اسرائیل کی بعض عورتیں جو قومِ فرعون کی عورتوں کے ساتھ کچھ رسم و راہ رکھتی تھیں وہ جب بچہ جنتیں تو اس کی جان کے اندیشہ سے وہ بچہ فرعونی قوم کی عورتوں کو دے ڈالتیں ، ایسے بچے جو فرعونیوں کے گھروں میں پلے تھے اس روز حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایما ن لے آئے جس دن اللہ تعالیٰ نے آپ کو جادوگروں پر غلبہ دیا تھا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ ’’مِنْ قَوْمِهٖ‘‘ میں ضمیر فرعون کی طرف لوٹ رہی ہے ،اس صورت میں قوم کی ذریت سے قومِ فرعون کی ذریت مراد ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ وہ قومِ فرعون کے تھوڑے لوگ تھے جو ایمان لائے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۳۲۷)
فرعون کے بارے میں فرمایا کہ وہ متکبر تھا کیونکہ وہ خود کو خدا کہتا تھا اور اس سے بڑھ کر کیا تکبر ہوسکتا ہے، نیز فرعون کو حد سے بڑھنے والا کہا گیا کیونکہ اس نے بندہ ہو کر بندگی کی حد سے گزرنے کی کوشش کی اور اُلُوہیت کا مدعی ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حد میں رہنا اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔ پانی حد سے بڑھ جائے تو طوفان بن جاتا ہے اور آدمی حد سے بڑھ جائے تو شیطان بن جاتاہے۔