Home ≫ ur ≫ Surah Yunus ≫ ayat 93 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِۚ-فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُؕ-اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(93)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ:اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ دی۔} یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ ٹھہرایا اور ان کے سمندر سے نکلنے اور ان کے دشمن فرعون کی ہلاکت کے بعد انہیں عزت کے مقام میں اتارا۔ آیت میں عزت کی جگہ سے یا تو ملک مصر اور فرعون و فرعونیوں کے اَملاک مراد ہیں یا سرزمینِ شام ، قُدس اور اُردن، جو کہ نہایت سرسبز و شاداب اور زرخیز ملک ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۳۳)
{فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُ:تو وہ اختلاف میں نہ پڑے مگر علم آنے کے بعد } یہاں علم سے مراد یا تو توریت ہے جس کے معنی میں یہودی آپس میں اختلاف کرتے تھے یا سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری ہے کہ اس سے پہلے تو سب یہودی آپ کے قائل اور آپ کی نبوت پر متفق تھے اور توریت میں جو آپ کی صفات مذکور تھیں ان کو مانتے تھے لیکن تشریف آوری کے بعد اختلاف کرنے لگے ،کچھ ایمان لے آئے اور کچھ لوگوں نے حسدو عداوت کی وجہ سے کفر کیا ۔ ایک قول یہ ہے کہ علم سے قرآنِ مجید مراد ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۳۳)
علم اللہ تعالیٰ کا عذاب اور حجاب بھی ہوتا ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ جس علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حقیقی معرفت نہ ہووہ علم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور حجاب ہے ،چنانچہ علم کے باوجود گمراہ ہوجانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’وَ اَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ‘‘ (الجاثیہ:۲۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے اسے علم کے باوجودگمراہ کردیا۔
اور جو علم معرفتِ الہٰی کا ذریعہ ہو ، وہ رحمت ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا
’’ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘ (طہ:۱۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور عرض کرو: اے میرے رب!میرے علم میں اضافہ فرما۔
{اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ِ:بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان میں فیصلہ کردے گا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہودی دنیا میں آپ کی نبوت کے معاملے میں جھگڑ رہے ہیں ،قیامت کے دن آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان میں عملی طور پر اس طرح فیصلہ کر دے گا کہ آپ پر ایمان لانے والوں کو جنت میں داخل فرمائے گا اور آپ کا انکار کرنے والوں کو جہنم کے عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۳۳)