Home ≫ ur ≫ Surah Yunus ≫ ayat 98 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ(98)
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَوْ لَا:تو کیوں ایسا نہ ہوا۔} یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان بستیوں میں سے جنہیں ہم نے ہلاک کیا کوئی قوم عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے کفر چھوڑ کر اِخلاص کے ساتھ توبہ کر کے ایمان لے آتی اور جس طرح فرعون نے اپنا ایمان لانا مُؤخَّر کیا وہ قوم نہ کرتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا کیونکہ اختیار کے وقت میں ایمان لانے کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کا ایمان قبول کر لیتا۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۹۸، ص۴۸۶)
{ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ:لیکن یونس کی قوم۔} حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ موصل کے علاقے نینوٰی میں رہتے تھے اور کفر و شرک میں مبتلا تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا، آپ نے انہیں بت پرستی چھوڑنے اور ایمان لانے کا حکم دیا، ان لوگوں نے انکار کیا اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی، آپ نے انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے عذاب نازل ہونے کی خبر دی، ان لوگوں نے آپس میں کہا کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کہی ہے، دیکھو اگر وہ رات کو یہاں رہے جب تو کوئی اندیشہ نہیں اور اگر انہوں نے رات یہاں نہ گزاری تو سمجھ لینا چاہیے کہ عذاب آئے گا۔ جب رات ہوئی توحضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہاں سے تشریف لے گئے اور صبح کے وقت عذاب کے آثار نمودار ہوگئے ، آسمان پر سیاہ رنگ کا ہیبت ناک بادل آیا ، بہت سارا دھواں جمع ہوا اور تمام شہر پر چھا گیا۔ یہ دیکھ کر انہیں یقین ہوگیا کہ عذاب آنے والا ہے ، انہوں نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو تلاش کیاتو آپ کو نہ پایا، اب انہیں اور زیادہ اندیشہ ہوا تو وہ لوگ اپنی عورتوں ، بچوں اور جانوروں کے ساتھ جنگل کی طرف نکل گئے، موٹے کپڑے پہن کر توبہ و اسلام کا اظہار کیا، شوہر سے بیوی اور ماں سے بچے جدا ہوگئے اور سب نے بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری شروع کر دی اور عرض کرنے لگے کہ جودین حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لائے ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے سچی توبہ کی اور جو جَرائم ان سے ہوئے تھے انہیں دور کیا، پرائے مال واپس کئے حتّٰی کہ اگر دوسرے کا ایک پتھرکسی کی بنیاد میں لگ گیا تھا تو بنیاد اکھاڑ کر وہ پتھر نکال دیا اور واپس کردیا ۔ اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ مغفرت کی دعائیں کیں توپروردگارِ عالَم نے ان پر رحم کیا، دعا قبول فرمائی اور عذاب اٹھا دیا گیا۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۸، ۲ / ۳۳۵-۳۳۶)
فرعون کی توبہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی توبہ میں فرق:
اس مقام پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے میں ذکر فرمایا کہ اس نے آخری وقت توبہ کی لیکن اس کی توبہ قبول نہ ہوئی جبکہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے بارے میں ذکر فرمایا کہ انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، دونوں کی توبہ میں کیا فرق ہے؟ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ فرعون کی توبہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی توبہ میں واضح فرق ہے وہ یہ کہ فرعون نے عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد توبہ کی تھی جبکہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر جب وہ نشانیاں ظاہر ہوئیں جو عذاب کے قریب ہونے پر دلالت کرتی ہیں تو انہوں نے عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے اسی وقت ہی توبہ کر لی تھی ۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۹۸، ۶ / ۳۰۳) اس کا مطلب یہ نکلا کہ نزولِ عذاب کے بعد توبہ قبول نہیں البتہ نزولِ عذاب سے پہلے صرف علاماتِ عذاب کے ظہور کے بعد توبہ قبول ہوسکتی ہے۔