Home ≫ ur ≫ Surah Ad Duha ≫ ayat 5 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىﭤ(5)
تفسیر: صراط الجنان
{وَلَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ
فَتَرْضٰى: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب
تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، بیشک قریب ہے کہ آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ آپ کو دنیا اور آخرت
میں اتنا دے گا کہ آ پ راضی ہو جائیں گے۔
اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے یہ وعدۂ کریمہ اُن
نعمتوں کو بھی شامل ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا میں عطا
فرمائیں جیسے کمالِ نفس، اَوّلین و آخرین کے علوم ، ظہورِ اَمر ،
دین کی سربلندی اور وہ فتوحات جو آپ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے عہد مبارک
میں ہوئیں اور جو صحابہ ٔکرام رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے زمانے میں ہوئیں اور تاقیامت
مسلمانوں کو ہوتی رہیں گی، آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی دعوت کا عام ہونا ، اسلام کا مشرق و مغرب میں پھیل جانا ،
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی اُمت کا تمام امتوں سے
بہترین ہونا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے وہ کرامات و کمالات جن کا
علم اللّٰہ تعالیٰ ہی کو ہے، اور یہ وعدہ آخرت کی عزت
و تکریم کو بھی شامل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو شفاعت ِعامہ و خاصہ اور مقامِ محمود وغیرہ جلیل نعمتیں عطا
فرمائیں ۔ (روح البیان، الضّحی، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۴۵۵، خازن، الضّحی، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۸۶، ملتقطاً)
خدا چاہتا ہے رضائے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ:
حضرت
عمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا پڑھی: ’’رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ
كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ
عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(ابراہیم:۳۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! بیشک
بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا تو جو میرے پیچھے
چلے تو بیشک وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بیشک تو بخشنے والا
مہربان ہے۔
اور
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا پڑھی: ’’اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ
عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ‘‘(مائدہ:۱۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تو انہیں عذاب دے
تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے
والا،حکمت والا ہے۔
تو
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے دونوں دستِ مبارک اُٹھا کر اُمت کے حق میں رو کر
دُعا فرمائی اور عرض کیا ’’اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ‘‘ اے اللّٰہ میری امت میری امت۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو حکم دیا کہ تم میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے پاس جاؤ۔تمہارا رب خوب جانتا ہے مگر ان سے پوچھوکہ ان کے رونے کا سبب کیا ہے؟حضرت جبریل نے حکم کے مطابق حاضر
ہو کر دریافت کیا توسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے انہیں تمام حال بتایا اور غمِ اُمت کا اظہار
کیا ۔حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی کہ
اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرے حبیب صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ یہ فرماتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو حکم دیا کہ جاؤ اور میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے کہو کہ ہم آپ کو آپ کی اُمت کے بارے میں عنقریب راضی
کریں گے اور آپ کے قلب مبار ک کو رنجیدہ نہ ہونے دیں گے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لامتہ... الخ، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲))
ابو
البرکات عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ
تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت
نازل ہوئی توحضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب تک میرا ایک
اُمتی بھی دوزخ میں رہے گامیں راضی نہ ہوں گا۔( مدارک، الضّحی، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۵۶)
مفتی
نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ آیت ِکریمہ صاف دلالت کرتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ وہی کرے گا جس میں رسول راضی ہوں اور
اَحادیثِ شفاعت سے ثابت ہے کہ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی رضا اسی میں ہے کہ سب گنہگارانِ اُمت
بخش دیئے جائیں تو آیت و اَحادیث سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ
حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کی شفاعت مقبول اور حسب ِمرضی ٔمبارک گنہگارانِ اُمت بخشے
جائیں گے۔ سُبْحَانَ اللّٰہ!کیا رتبۂ عُلیا ہے کہ جس
پروردگار عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرنے کے لئے تمام مُقَرّبین تکلیفیں برداشت کرتے اور
محنتیں اُٹھاتے ہیں وہ اس حبیب ِاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَسَلَّمَ کو راضی کرنے کے لئے عطا عام کرتا
ہے۔( خزائن العرفان، الضّحی، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۱۰۹)
اعلیٰ
حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالَم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد