banner image

Home ur Surah Al Juma ayat 7 Translation Tafsir

اَلْجُمُعَة

Surah Al Juma

HR Background

وَ لَا یَتَمَنَّوْنَهٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ(7)

ترجمہ: کنزالایمان اور وہ کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے ان کوتکوں کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو جانتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور وہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے اُن اعمال کے سبب جو اُن کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا یَتَمَنَّوْنَهٗۤ اَبَدًا: اور وہ کبھی موت کی تمنا نہیں  کریں  گے ۔}  یعنی یہودیوں  نے جو کفر کیا اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلایا اس کی وجہ سے یہ کبھی موت کی آرزو نہیں  کریں  گے ۔ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبر تھی جو سچی ثابت ہوئی کہ آیت میں  جن یہودیوں  کے بارے میں  فرمایا گیا کہ یہ کبھی موت کی تمنا نہیں  کریں  گے انہوں  نے ہرگز موت کی تمنا نہیں  کی۔

موت کی تمنا کرنے کا شرعی حکم:

             اَحادیث میں  موت کی تمنا کرنے سے منع کیا گیا ہے ،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،  رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں  سے کوئی موت کی آرزو نہ کرے نیک شخص تو اس لئے کہ شاید وہ مزید نیکیاں  کرلے اور گناہگار اس لئے کہ شاید وہ توبہ کرلے۔( بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۳)

            اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم میں  سے کوئی نہ موت کی آرزو کرے، نہ اس کے آنے سے پہلے اس کی دعا کرے کیونکہ جب وہ مرجائے گا تو اس کا عمل ختم ہوجائے گا اور مومن کی عمر بھلائی ہی بڑھاتی ہے ۔( مسلم، کتاب الذکر والدعائ۔۔۔ الخ، باب کراہۃ تمنّی الموت لضر نزل بہ، ص۱۴۴۱، الحدیث: ۱۳(۲۶۸۲))

            البتہ اگر مجبوری میں  موت کی آرزو کرنی ہی پڑے تو حدیث ِپاک میں  اس کا طریقہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے ،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم میں  سے کوئی آئی ہوئی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے، پھر اگر کرنی ہی پڑ جائے تو یوں  کہے:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے موت بہتر ہو تو مجھے موت دے ۔( بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱)

            مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  : یہ حدیث گزشتہ(دونوں ) اَحادیث کی شرح ہے کہ بیماری و آزاری سے گھبراکرموت نہ مانگے اورجس طریقہ سے دعا کی اجازت دی گئی ہے نہایت ہی پیارا طریقہ ہے کیونکہ اس خیروشرمیں  دین و دنیا کی خیروشرشامل ہے گویا موت کی تمنا کہہ بھی لی مگر قاعدے سے۔(مراٰۃ المناجیح، جنازوں کا باب، باب موت کی آرزو اور اس کا ذکر، پہلی فصل، ۲ / ۴۲۱، تحت الحدیث: ۱۵۱۳)یعنی مقصد بھی پورا ہوگیا اور ممانعت کے حکم پر بھی عمل ہوگیا۔

            مزید فرماتے ہیں  :موت کی آرزو اچھی بھی ہے اور بری بھی،اگر حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دیدار کے لیے یا دنیاوی فتنوں  سے بچنے کے لیے موت کی تمناکرناہے تو اچھاہے اور اگر دُنْیَوی تکالیف سے گھبرا کرتمنائے موت کرے تو برا(ہے)۔( مراٰۃ المناجیح، جنازوں کا باب، باب موت کی آرزو اور اس کا ذکر، پہلی فصل، ۲ / ۴۲۰)

{وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ: اور اللّٰہ ظالموں  کو خوب جانتا ہے۔} اس آیت میں  ظالم سے مراد کافر ہے یعنی اللّٰہ تعالیٰ کافروں  کو خوب جانتا ہے اور وہ انہیں  سخت سزا دے گا۔