Home ≫ ur ≫ Surah Al Alaq ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ(1)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ: اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔ } شانِ نزول:حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ’’ رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر وحی کی ابتداء اچھے خوابوں سے ہوئی،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا،پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ خَلْوَت پسند ہو گئے اور غارِ حرا میں جانے لگے اور کاشانۂ اَ قدس کی طرف لوٹنے سے پہلے وہاں کئی کئی راتیں ٹھہر کر عبادت کرتے اور(ا تنا عرصہ وہاں رہنے کے لئے) کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جاتے،پھر حضرت خدیجہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرف لوٹتے اور وہ اسی طرح کھانے کا بندو بست کر دیاکرتیں یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے پاس حق آ گیا جب کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ غارِ حرا میں تھے یعنی فرشتے نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کہا:پڑھئے۔نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ فرماتے ہیں ’’میں نے کہا:میں پڑھنے والا نہیں ہوں ۔اس نے مجھے پکڑ کر بڑے زور سے دبایا،پھر چھوڑتے ہوئے کہا:پڑھئے۔ میں نے کہا’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں ۔اس نے مجھے پکڑ کر دوبارہ بڑے زور سے دبایا، پھر چھوڑ دیا اور کہا:پڑھئے۔میں نے کہا’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں اس نے مجھے پکڑا اور تیسری بار دبایا ،پھر مجھے چھوڑ کر کہا: ’’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ(۲)اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ(۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔پڑھواور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے۔جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔( بخاری ، کتاب بدء الوحی ، ۳-باب ، ۱ / ۷، الحدیث: ۳، مسلم ، کتاب الایمان، باب بدء الوحی الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۹۴، الحدیث: ۲۵۲(۱۶۰))
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نام کا ذکر کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،آپ کی طرف جو قرآن نازل کیا گیا اسے اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کے نام سے شروع کرتے ہوئے پڑھو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۹۳، قرطبی، العلق، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۸۵، الجزء العشرون، ملتقطاً)
تلاوت کرنے سے پہلے ’’ بِسْمِ اللّٰہ ‘‘ پڑھنے کا شرعی حکم:
یاد رہے کہ سورت کی ابتداء میں بسم اللّٰہ پڑھنا سنت، ورنہ مُستحب ہے اور اگر تلاوت کرنے والا جو آیت پڑھنا چاہتا ہے اس کی ابتدا ء میں ضمیر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے، جیسے ’’هُوَاللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‘‘ تو اس صورت میں اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھنے کے بعد بِسْمِ اللّٰہ پڑھنا تاکید کے ساتھ مستحب ہے،اگر تلاوت کرنے والا تلاوت کے درمیان میں کوئی دُنْیَوی کام کرے تو اعوذباللّٰہ اور بسم اللّٰہ پھر پڑھ لے اور اگر ا س نے دینی کام کیا مثلاً سلام یا اذان کا جواب دیا یا سُبْحَانَ اللّٰہ اور کلمۂ طیبہ وغیرہ اَذکار پڑھے تو اَعُوْذُ بِاللّٰہ پھر پڑھنا اس کے ذمے نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ سوم، قرآن مجید پڑھنے کابیان، ۱ / ۵۵۰-۵۵۱، ملخصاً)