banner image

Home ur Surah Al Anam ayat 94 Translation Tafsir

اَلْاَ نْعَام

Al Anam

HR Background

وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْۚ-وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْكُمْ شُرَكٰٓؤُاؕ-لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ(94)

ترجمہ: کنزالایمان اور بیشک تم ہمارے پاس اکیلے آئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے جو مال متاع ہم نے تمہیں دیا تھا اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جن کا تم اپنے میں ساجھا بتاتے تھے بیشک تمہارے آپس کی ڈور کٹ گئی اور تم سے گئے جو دعوے کرتے تھے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور بیشک تم ہمارے پاس اکیلے آئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اورتم اپنے پیچھے وہ سب مال و متاع چھوڑ آئے جو ہم نے تمہیں دیا تھا اور (آج) ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جنہیں تم گمان کرتے تھے کہ وہ تم میں (ہمارے) شریک ہیں ۔ بیشک تمہارے درمیان جدائی ہوگئی اور تم سے وہ غائب ہوگئے جن (کے معبود ہونے) کا تم دعویٰ کرتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى: اور تم ہمارے پاس اکیلے آئے۔} گزشتہ آیت میں کافروں کی موت کے احوال بیان ہوئے تھے اور اس آیت میں قیامت کے احوال کا بیان ہے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ان کافروں سے کہا جائے گا: بیشک تم ہمارے پاس حساب و جزا کے لئے ایسے اکیلے آئے جیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، نہ تمہارے ساتھ مال ہے ،نہ جاہ، نہ اولاد جن کی محبت میں تم عمر بھر گرفتار رہے اورنہ بت جنہیں پوجتے رہے۔ آج اُن میں سے کوئی تمہارے کام نہ آیابلکہ تم وہ سب مال ومتاع اپنے پیچھے چھوڑ آئے جو ہم نے تمہیں دیا تھا اور آج ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جنہیں تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے عبادت کرنے میں ہمارے شریک ہیں۔ بیشک تمہارے درمیان جدائی ہوگئی اور تم سے وہ بت غائب ہوگئے جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے۔

قبر و حشر کی تنہائی کے ساتھی بنانا عقلمندی ہے:

            یاد رہے کہ مرنے کے بعد انسان قبر میں اکیلا ہو گااور دنیا کے مال و متاع،اہل و عیال ،عزیز رشتہ دار اور دوست احباب میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ قبر میں نہ جائے گا بلکہ یہ سب اسے قبر کے تاریک گڑھے میں تنہا اور اکیلا چھوڑ کر چلے جائیں گے، اسی طرح میدانِ حشر میں بھی انسان اس طرح اکیلا ہو گا کہ اس وقت اس کا ساتھ دینے کی بجائے ہر ایک اس سے بے نیا ز ہو کر اپنے انجام کی فکر میں مبتلا ہو گا ، یونہی بارگاہِ الٰہی میں اپنے اعمال کا حساب دینے بھی یہ تنہا حاضر ہو گا لہٰذا دانائی یہی ہے کہ دنیا کی زندگی میں رہتے ہوئے اپنے ایسے ساتھی بنا لئے جائیں جو قبر کی وحشت انگیز تنہائی میں اُنْسِیَّت اور غمخواری کا باعث ہوں اور قیامت کے دن نفسی نفسی کے ہولناک عالم میں تسکین کا سبب بنیں اور یہ ساتھی نیک اعمال ہیں جیسا کہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں ، دو واپس لوٹ آتی ہیں اور ایک ا س کے ساتھ باقی رہتی ہے، اس کے اہل و عیال، اس کا مال اور ا س کا عمل اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اس کے اہل و عیال اور ا س کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ا س کا عمل باقی رہتا ہے(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۴)۔[1]


[1]…قبر کے ساتھی بنانے کی اہمیت اور ترغیب سے متعلق کتاب’’قبر میں آنے والا دوست‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔