Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 101 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ(101)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰى:بیشک جن کے لیے ہمارا بھلائی کا وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے ۔} شانِ نزول : رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک دن کعبہ معظمہ میں داخل ہوئے ، اس وقت قریش کے سردار حطیم میں موجود تھے اور کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے ۔ نضر بن حارث سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے آیا اور آپ سے کلام کرنے لگا ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے جواب دے کرخاموش کر دیا اور یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ‘‘(انبیاء:۹۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تم اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہیں ۔
یہ فرما کر حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے۔ پھر عبد اللہ بن زبعری سہمی آیا اور اسے ولید بن مغیرہ نے اس گفتگو کی خبر دی تو وہ کہنے لگا: خدا کی قسم !اگر میں ہوتا تو ان سے بحث مباحثہ کرتا۔ اس پر لوگوں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بلوا لیا ۔ ابنِ زبعری یہ کہنے لگا : آپ نے یہ فرمایا ہے کہ تم اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے سوا تم پوجتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہیں ؟ حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ہاں ۔ وہ کہنے لگا: یہودی تو حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پوجتے ہیں اور عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پوجتے ہیں اور بنی ملیح فرشتوں کو پوجتے ہیں (مطلب یہ کہ پھر تو یہ بھی جہنم میں جائیں گے) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بیان فرما دیا کہ حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتے وہ ہیں جن کے لئے بھلائی کا وعدہ ہو چکا اور وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں ، اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ درحقیقت یہودی اور عیسائی وغیرہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں ۔ ان جوابوں کے بعد اسے دم مارنے کی مجال نہ رہی اور وہ بھی خاموش رہ گیا۔ درحقیقت ابنِ زبعری کا اعتراض انتہائی عناد کی وجہ سے تھا کیونکہ جس آیت پر اس نے اعتراض کیا اس میں مَا تَعْبُدُوْنَ کا لفظ ہے اور مَا عربی زبان میں ان کے لئے بولا جاتا ہے جو ذَوِی الْعُقول نہ ہوں ، یہ جاننے کے باوجود اس نے اندھا بن کر اعتراض کیا ۔ یہ اعتراض تو اہلِ زبان کی نگاہوں میں کھلا ہوا باطل تھا مگر مزید بیان کے لئے اس آیت میں وضاحت فرما دی گئی کہ حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتے جہنم سے دور رکھے گئے ہیں ۔
بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں وہ تمام مومنین داخل ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی اور سعادت کا وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے ،یہ سب جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۲۹۶، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۷۲۷، ملتقطاً)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت و شان:
تفسیر مدارک میں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے یہ آیت ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰى‘‘پڑھ کر فرمایا ’’میں انہیں میں سے ہوں اور حضرت ابوبکر ، عمر، عثمان ،طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی انہیں میں سے ہیں ۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۷۲۷)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عَزِیْز جَبَّار وَاحِد قَہَّارجَلَّ وَعَلَا نے صحابۂ کرام کو دو قسم کیا، ایک وہ کہ قبلِ فتحِ مکہ جنہوں نے راہِ خدا میں خرچ وقتال کیا، دوسرے وہ جنہوں نے بعد ِفتح ،پھر فرما دیا کہ دونوں فریق سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اللہ کو تمہارے کاموں کی خوب خبر ہے کہ تم کیا کیا کرنے والے ہو، با اینہمہ اس نے تم سب سے حُسنٰی کا وعدہ فرمایا۔ یہاں قرآنِ عظیم نے ان دریدہ دہنوں ، بیباکوں ، بے ادب، ناپاکوں کے منہ میں پتھر دے دیا جو صحابۂ کرام کے افعال سے اُن پر طعن چاہتے ہیں ، وہ بشرطِ صحت اللہ عَزَّوَجَلَّ کو معلوم تھے ،پھر بھی اُن سب سے حُسنیٰ کا وعدہ فرمایا ، تو اب جومُعترض ہے اللہ واحدقہار پر معترض ہے، جنت ومدارجِ عالیہ اس معترض کے ہاتھ میں نہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاتھ ہیں، معترض اپنا سرکھاتا رہے گا اور اللہ نے جو حُسنیٰ کا وعدہ اُن سے فرمایا ہے ضرور پورا فرمائے گا اور معترض جہنم میں سزاپائے گا، وہ آ یۂ کریمہ یہ ہے:
’’لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ‘‘(حدید:۱۰)
اے محبوب کے صحابیو!تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ وقتال کیا، وہ رُتبے میں بعد والوں سے بڑے ہیں ، اور دونوں فریق سے اللّٰہ نے حُسنیٰ کا وعدہ کرلیا، اور اللّٰہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرنے والے ہو۔
اب جن کے لیے اللّٰہ کا وعدہ حُسنیٰ کا ہولیا اُن کا حال بھی قرآن عظیم سے سنئے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(۱۰۱) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۲) لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘‘(انبیاء: ۱۰۱-۱۰۳)
بے شک جن کے لیے ہمارا وعدہ حُسنیٰ کا ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں ، اس کی بھنک تک نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے۔وہ بڑی گھبراہٹ قیامت کی ہلچل انہیں غم نہ دے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔
یہ ہے جمیع صحابۂ کرام سیّدُ الانام عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے قرآن کریم کی شہادت۔ امیرالمومنین ، مولی المسلمین ،علی مرتضیٰ مشکل کشا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم قسمِ اول میں ہیں جن کو فرمایا ’’ اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً‘‘ اُن کے مرتبے قسمِ دوم والوں سے بڑے ہیں ۔ اور امیر معاویہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ قسمِ دوم میں ہیں ، اور حُسنیٰ کا وعدہ اور یہ تمام بشارتیں سب کوشامل۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۲۷۹-۲۸۰)
{ اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ:وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں جہنم کے عذاب اور اس کی اَذِیّت و تکلیف سے دور رکھا جائے گا کیونکہ جب مومنین جہنم کے اوپر سے گزریں گے تو جہنم کی آگ ٹھندی ہونے لگے گی اور وہ کہے گی اے مومن !جلدی سے گزر جا کیونکہ تیرے نورنے میرے شعلے کو بجھا دیا ہے۔لہٰذا ایمان والوں کا جہنم کے اوپر سے گزرنا اس آیت کے مُنافی نہیں ہے۔( صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۱۳۲۰)