Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 102 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ(102)لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(103)
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَا:وہ اس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے۔} بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ جنت کی مَنازل میں آرام فرما ہوں گے تووہ جہنم کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے اور اس کے جوش کی آواز بھی ان تک نہ پہنچے گی ، اور وہ جنت میں اپنی دل پسند نعمتوں اور کرامتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔( جمل، الانیباء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۵ / ۱۶۴، قرطبی، الانیباء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۲۰۴، ملتقطاً)
{لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ:انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’سب سے بڑی گھبراہٹ سے مراد دوسری بار صُور میں پھونکا جانا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے وہ وقت مراد ہے جب موت کو ذبح کر کے یہ ندا دی جائے گی کہ اے جہنم والو! تمہیں اب موت کے بغیر جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے۔
مزید فرمایا کہ قبروں سے نکلتے وقت مبارک باد دیتے اور یہ کہتے ہوئے فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ تمہیں ثواب ملنے کا وہ دن ہے جس کا دنیا میں تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۷۲۷، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۳ / ۲۹۶، ملتقطاً)
سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہنے والے لوگ:
اَحادیث میں چند ایسے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو قیامت کے دن سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہیں گے، ترغیب کے لئے یہاں ان پانچ خوش نصیب افراد کا ذکر کیا جاتا ہے جن کا ذکر اَحادیث میں ہے،
(1)…شہید۔ چنانچہ حضرت مقدام بن معدی کرب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سےروایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شہید کے لئے چھ خصلتیں ہیں ، خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی ا س کی بخشش ہو جاتی ہے۔ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔ اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔ بڑی آنکھوں والی 72 حوریں ا س کے نکاح میں دی جائیں گی اور ا س کے ستر رشتہ داروں کے حق میں ا س کی شفاعت قبول کی جائے گی۔( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب فی ثواب الشہید، ۳ / ۲۵۰، الحدیث: ۱۶۶۹)
(2)…رضائے الٰہی کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو نہ انبیاء ہیں نہ شہداء،ان کے لئے قیامت کے دن نور کے منبر رکھے جائیں گے ،ان کے چہرے بھی نورانی ہوں گے اوروہ قیامت کے دن سب سے بڑی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔ ایک شخص نے عرض کی :یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا’’وہ مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ ہوں گے جو ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطر محبت رکھتے ہوں گے۔( معجم الکبیر،من اسمہ:معاذ، معاذ بن جبل الانصاری۔۔۔الخ، رجال غیر مسمّین عن معاذ،۲۰ / ۱۶۸،الحدیث: ۳۵۸)
(3 ، 4 ، 5)…جس امام سے مقتدی خوش ہوں ، روزانہ اذان دینے والا، اللہ تعالیٰ اور اپنے آقا کا حق ادا کرنے والا غلام۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سےروایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین افراد ایسے ہیں جنہیں قیامت کے دن سب سے بڑی گھبراہٹ پریشان نہیں کرے گی ، انہیں حساب کی سختی نہ پہنچے گی اور وہ مخلوق کا حساب ختم ہونے تک کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ۔ (۱) وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قرآن پڑھا اور ا س کے ساتھ کسی قوم کی امامت کی اور وہ ا س سے را ضی ہوں ۔ (۲) وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے لوگوں کو پانچوں نمازوں کی طرف اذان دے کر بلائے۔ (۳) وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کاحق اور اپنے آقاؤں کا حق اچھے طریقے سے ادا کرتا ہے۔( معجم الصغیر، باب الواو، من اسمہ: الولید، ص۱۲۴، الجزء الثانی)