Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 7 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(7)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ:اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔} یہاں کفارِ مکہ کے سابقہ کلام کا رد کیا جا رہا ہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بشری صورت میں ظہور فرمانا نبوت کے منافی نہیں کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے بھی ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کی طرف فرشتے کو رسول بنا کر نہیں بھیجا بلکہ سابقہ قوموں کے پاس بھی اللہ تعالیٰ نے جو نبی اور رسول بھیجے وہ سب انسان اور مرد ہی تھے اور ان کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتوں کے ذریعے احکامات وغیرہ کی وحی کی جاتی تھی اور جب اللہ تعالیٰ کا دستور ہی یہ ہے تو پھر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بشری صورت میں ظہور فرمانے پر کیا اعتراض ہے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۲۷۲، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۴۵۵، تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۱۲۲، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مرد تھے، کوئی عورت نبی نہ ہوئی۔
{فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ:تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔} آیت کے اس حصے میں کفارِ مکہ سے فرمایا گیا کہ اگر تمہیں گزشتہ زمانوں میں تشریف لانے والے رسولوں کے احوال معلوم نہیں تو تم اہلِ کتاب کے ان علماء سے پوچھ لو جنہیں ان کے احوال کا علم ہے ،وہ تمہیں حقیقت ِ حال کی خبر دیں گے۔( جلالین مع صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۱۲۹۱)
شرعی معلومات نہ ہونے اور نہ لینے کے نقصانات:
اس آیت میں نہ جاننے والے کو جاننے والے سے پوچھنے کا حکم دیا گیا کیونکہ ناواقف کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں کہ وہ واقف سے دریافت کرے اور جہالت کے مرض کا علاج بھی یہی ہے کہ عالم سے سوال کرے اور اس کے حکم پر عمل کرے اور جو اپنے اس مرض کا علاج نہیں کرتا وہ دنیا و آخرت میں بہت نقصان اٹھاتا ہے۔ یہاں اس کے چند نقصانات ملاحظہ ہوں
(1)… ایمان ایک ایسی اہم ترین چیز ہے جس پر بندے کی اُخروی نجات کا دارومدار ہے اور ایمان صحیح ہونے کے لئے عقائد کا درست ہونا ضروری ہے، لہٰذا صحیح اسلامی عقائد سے متعلق معلومات ہونا لازمی ہے۔ اب جسے اُن عقائد کی معلومات نہیں جن پر بندے کا ایمان درست ہونے کا مدار ہے تو وہ اپنے گمان میں یہ سمجھ رہا ہو گا کہ میرا ایمان صحیح ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے اور اگر حقیقت بر عکس ہوئی اور حالت ِکفر میں مر گیا تو آخرت میں ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا پڑے گا اور ا س کے انتہائی دردناک عذابات سہنے ہوں گے۔
(2)…فرض و واجب اور دیگر عبادات کو شرعی طریقے کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے،اس لئے ان کے شرعی طریقے کی معلومات ہونا بھی ضروری ہے۔ اب جسے عبادات کے شرعی طریقے اوراس سے متعلق دیگر ضروری چیزوں کی معلومات نہیں ہوتیں اور نہ وہ کسی عالم سے معلومات حاصل کرتا ہے تو مشقت اٹھانے کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جیسے نماز کے درست اور قابلِ قبول ہونے کے لئے ’’طہارت‘‘ ایک بنیادی شرط ہے اور جس کی طہارت درست نہ ہو تووہ اگرچہ برسوں تک تہجد کی نما زپڑھتا رہے، پابندی کے ساتھ پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرتا رہے اورساری ساری رات نوافل پڑھنے میں مصروف رہے، اس کی یہ تمام عبادات رائیگاں جائیں گی اور وہ ان کے ثواب سے محروم رہے گا۔
(3)…کاروباری، معاشرتی اور ازدواجی زندگی کے بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کے لئے شریعت نے کچھ اصول اور قوانین مقرر کئے ہیں اور انہی اصولوں پر اُن معاملات کے حلال یا حرام ہونے کا مدار ہے اور جسے ان اصول و قوانین کی معلومات نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے تو حلال کی بجائے حرام میں مبتلا ہونے کا چانس زیادہ ہے اور حرام میں مبتلا ہونا خود کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حقدار ٹھہرانا ہے۔
سرِ دست یہ تین بنیادی اور بڑے نقصانات عرض کئے ہیں ورنہ شرعی معلومات نہ لینے کے نقصانات کی ایک طویل فہرست ہے جسے یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو عقائد، عبادات ،معاملات اور زندگی کے ہر شعبے میں شرعی معلومات حاصل کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
فرض علوم سیکھنے کی ضرورت و اہمیت
یہاں میری ایک کتاب ’’علم اور علماء کی اہمیت‘‘ سے فرض علوم کی اہمیت و ضرورت پر ایک مضمون ملاحظہ ہو، چنانچہ اس میں ہے کہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہر آدمی پر اپنی ضرورت کے مسائل سیکھنا ضروری ہے نمازی پر نماز کے ، روزہ رکھنے والے پر روزے کے ، زکوٰۃ دینے والے پرزکوٰۃ کے ،حاجی پر حج کے، تجارت کرنے والے پر خریدوفروخت کے، قسطوں پر کاروبار کرنے والے کے لئے اس کاروبار کے ، مزدوری پر کام کرنے والے کے لئے اجارے کے ، شرکت پر کام کرنے والے کے لئے شرکت کے ، مُضاربت کرنے والے پر مضاربت کے (مضاربت یہ ہوتی ہے کہ مال ایک کا ہے اور کام دوسرا کرے گا)، طلاق دینے والے پر طلاق کے، میت کے کفن ودفن کرنے والے پر کفن ودفن کے، مساجد ومدارس، یتیم خانوں اور دیگر ویلفیئرز کے مُتَوَلّیوں پر وقف اور چندہ کے مسائل سیکھنا فرض ہے ۔ یونہی پولیس، بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں اوردیگر محکموں کے ملازمین نیز جج اور کسی بھی ادارے کے افسر وناظمین پر رشوت کے مسائل سیکھنا فرض ہیں ۔ اسی طرح عقائد کے مسائل سیکھنا یونہی حسد ، بغض ، کینہ ، تکبر، ریاوغیرہا جملہ اُمور کے متعلق مسائل سیکھنا ہر اس شخص پر لازم ہے جس کا ان چیزوں سے تعلق ہوپھر ان میں فرائض ومُحَرّمات کا علم فرض اور واجبات ومکروہِ تحریمی کا علم سیکھنا واجب ہے اور سنتوں کا علم سیکھنا سنت ہے۔
اس مفہوم کی ایک حدیث حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، سرکا رِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: علم کا طلب کرنا ہر مومن پر فرض ہے یہ کہ وہ روزہ، نماز اور حرام اور حدود اور احکام کو جانے۔( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۶۸، الحدیث: ۱۵۷)
اس حدیث کی شرح میں خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فرمان ’’ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ کا معنی یہ ہے کہ ہرشخص پر فرض ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت کے مسائل سیکھے جس پر اس کی لاعلمی کو قدرت نہ ہو۔( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱)
اسی طرح کا ایک اور قول حضرت حسن بن ربیع رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ کی تفسیر کیا ہے؟آپ نے فرمایا :یہ وہ علم نہیں ہے جس کو تم آج کل حاصل کر رہے ہو بلکہ علم کاطلب کرنا اس صورت میں فرض ہے کہ آدمی کو دین کاکوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ اس مسئلے کے بارے میں کسی عالم سے پوچھے یہا ں تک کہ وہ عالم اسے بتا دے۔( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱، روایت نمبر: ۱۶۲)
حضرت علی بن حسن بن شفیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مبارک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا :علم سیکھنے کے اندر وہ کیا چیز ہے جو لوگوں پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا :وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کام کی طرف قدم نہ اٹھائے جب تک اس کے بارے میں سوال کر کے اس کا حکم سیکھ نہ لے، یہ وہ علم ہے جس کا سیکھنا لوگوں پر واجب ہے ۔ اورپھر اپنے اس کلام کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اگر کسی بندے کے پاس مال نہ ہو تو اس پر واجب نہیں کہ زکوٰۃ کے مسائل سیکھے بلکہ جب اس کے پاس دو سو درہم (ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا) آجا ئے تو اس پر یہ سیکھنا واجب ہوگا کہ وہ کتنی زکوٰۃ ادا کرے گا؟ اور کب نکالے گا؟ او ر کہاں نکالے گا؟ اور اسی طرح بقیہ تمام چیزوں کے احکام ہیں ۔ (یعنی جب کوئی چیز پیش آئے گی تو اس کی ضرورت کے مسائل سیکھنا ضروری ہو جائے گا)(الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱، روایت نمبر: ۱۶۳)
امام ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ہر مسلمان پر یہ بات واجب ہے کہ وہ کھانےپینے، پہننے میں او ر پوشیدہ امور کے متعلق ان چیزوں کا علم حاصل کرے جو اس کے لیے حلال ہیں اور جو اس پر حرام ہیں ۔ یونہی خون اور اموال میں جو اس پر حلال ہے یا حرام ہے یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن سے بے خبر (غافل ) رہنا کسی کو بھی جائز نہیں ہے اور ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ ان چیزوں کو سیکھے ۔۔۔۔اور امام یعنی حاکمِ وقت عورتوں کے شوہروں کو اور لونڈیوں کے آقاؤں کو مجبور کرے کہ وہ انہیں وہ چیزیں سکھائیں جن کا ہم نے ذکر کیا اور حاکمِ وقت پر فرض ہے کہ وہ لوگوں کی اس بارے میں پکڑ کرے اور جاہلوں کو سکھانے کی جماعتیں ترتیب دے اور ان کے لئے بیت المال کے اندر رزق مقرر کرے اور علماء پر واجب ہے کہ وہ جاہلوں کو وہ چیزیں سکھائیں جن سے وہ حق وباطل میں فرق کرلیں ۔(الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۴)
ان تمام اَقوال سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علمِ دین سیکھنا صرف کسی ایک خاص گروہ کا کام نہیں بلکہ اپنی ضرورت کی بقدر علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت علمِ دین سے دور نظر آتی ہے ۔ نمازیوں کو دیکھیں تو چالیس چالیس سال نماز پڑھنے کے باوجود حال یہ ہے کہ کسی کو وضو کرنا نہیں آتا تو کسی کو غسل کا طریقہ معلوم نہیں ، کوئی نماز کے فرائض کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتا تو کوئی واجبات سے جاہل ہے، کسی کی قرأ ت درست نہیں تو کسی کا سجدہ غلط ہے۔ یہی حال دیگر عبادات کا ہے خصوصاً جن لوگوں نے حج کیا ہو ان کو معلوم ہے کہ حج میں کس قدر غلطیاں کی جاتی ہیں ! ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ بس حج کے لئے چلے جاؤ جو کچھ لوگ کر رہے ہوں گے وہی ہم بھی کرلیں گے۔ جب عبادات کا یہ حال ہے تو دیگر فرض علوم کا حال کیا ہوگا؟ یونہی حسد، بغض، کینہ، تکبر، غیبت، چغلی، بہتان اورنجانے کتنے ایسے امور ہیں جن کے مسائل کا جاننا فرض ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو ان کی تعریف کا پتہ تک نہیں بلکہ ان کی فرضیت تک کا علم نہیں ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا گناہ ہونا عموماً لوگوں کو معلوم ہوتا ہے اور وہ چیزیں جن کے بارے میں بالکل بے خبر ہیں جیسے خریدوفروخت، ملازمت، مسجدو مدرسہ اور دیگر بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان کے کچھ مسائل بھی ہیں ، بس ہر طرف ایک اندھیر نگری مچی ہوئی ہے ،ایسی صورت میں ہر شخص پر ضروری ہے خود بھی علم سیکھے اور جن پر اس کا بس چلتا ہو انہیں بھی علم سیکھنے کی طرف لائے اور جنہیں خود سکھا سکتا ہے انہیں سکھائے ۔
اگر تمام والدین اپنی اولاد کو اور تمام اساتذہ اپنے شاگردوں کو اور تمام پیر صاحبان اپنے مریدوں کو اور تمام افسران و صاحب ِ اِقتدار حضرات اپنے ماتحتوں کوعلمِ دین کی طرف لگا دیں تو کچھ ہی عرصے میں ہر طرف دین اور علم کا دَور دورہ ہو جائے گا اور لوگوں کے معاملات خود بخود شریعت کے مطابق ہوتے جائیں گے۔ فی الوقت جو نازک صورتِ حال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ایک مرتبہ سناروں کی ایک بڑی تعداد کوایک جگہ جمع کیا گیا جب ان سے تفصیل کے ساتھ ان کا طریقۂ کار معلوم کیا گیا تو واضح ہوا کہ اس وقت سونے چاندی کی تجارت کا جو طریقہ رائج ہے وہ تقریباً اسی فیصد خلافِ شریعت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری دیگر تجارتیں اور ملازمتیں بھی کچھ اسی قسم کی صورتِ حال سے دوچار ہیں ۔
جب معاملہ اتنا نازک ہے تو ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرسکتا ہے، اس لئے ہر شخص پر ضروری ہے کہ علمِ دین سیکھے اور حتّی الامکان دوسروں کو سکھائے یا اس راہ پر لگائے اور یہ محض ایک مشورہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا پس شہر کا حکمران لوگوں پرحاکم ہے اس سے اس کے ماتحت لوگو ں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی بیوی کے بارے میں اور ان(غلام لونڈیوں ) کے بارے میں پوچھا جائے گاجن کا وہ مالک ہے۔( معجم صغیر، باب الدال، من اسمہ: داود، ص۱۶۱)
مذکورہ بالا حدیث میں اگرچہ ہر بڑے کو اپنے ماتحت کو علم سکھانے کا فرمایا ہے لیکن والدین پر اپنی اولاد کی ذمہ داری چونکہ سب سے زیادہ ہے اس لئے ان کو بطورِ خاص تاکید فرمائی گئی ہے ،چنانچہ حضرت عثمان الحاطبی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاکو سنا کہ آپ ایک شخص کو فرما رہے تھے: اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ، بے شک تم سے تمہارے لڑکے کے بارے میں پوچھا جائے گا جو تم نے اسے سکھایا اور تمہارے اس بیٹے سے تمہاری فرمانبرداری اور اطاعت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔( شعب الایمان، الستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۴۰۰، روایت نمبر: ۸۶۶۲)
اس حدیث پر والدین کو خصوصاً غور کرنا چاہیے کیونکہ قیامت کے دن اولاد کے بارے میں یہی گرفت میں آئیں گے ،اگر صرف والدین ہی اپنی اولاد کی دینی تربیت و تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دے لیں تو علمِ دین سے دوری کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ دُنْیَوی علوم کے سکھانے میں تو والدین ہرقسم کی تکلیف گوارا کرلیں گے ،اسکول کی بھاری فیس بھی دیں گے، کتابیں بھی خرید کر دیں گے اور نجانے کیاکیا کریں گے لیکن علمِ دین جو ان سب کے مقابلے میں ضروری اور مفید ہے اس کے بارے میں کچھ بھی توجہ نہیں دیں گے، بلکہ بعض ایسے بدقسمت والدین کو دیکھا ہے کہ اگر اولاد دین اور علمِ دین کی طرف راغب ہوتی ہے تو انہیں جبراً منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کیا رکھا ہے ۔ہم دنیوی علم کی اہمیت و ضرورت کا انکار نہیں کرتے لیکن یہ دینی علم کے بعد ہے اور والدین کا یہ کہنا کہ علمِ دین میں رکھا ہی کیا ہے؟ یہ بالکل غلط جملہ ہے۔ اول تو یہ جملہ ہی کفریہ ہے کہ اس میں علمِ دین کی تحقیر ہے۔ دوم اسی پر غور کرلیں کہ علمِ دین سیکھنا اور سکھانا افضل ترین عبادت، انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وراثت، دنیا و آخرت کی خیر خواہی اور قبروحشر کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔آج نہیں تو کل جب حساب کے لئے بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہونا پڑے گااس وقت پتہ چلے گا کہ علمِ دین کیا ہے؟ بلکہ صرف اسی بات پر غور کرلیں کہ مرتے وقت آج تک آپ نے کسی شخص کو دیکھا ہے کہ جس کو دنیا کا علم حاصل نہ کرنے پر افسوس ہورہا ہو ۔ہاں علمِ دین حاصل نہ کرنے ، دینی راہ پر نہ چلنے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے کام نہ کرنے پر افسوس کرنے والے آپ کو ہزاروں ملیں گے اور یونہی مرنے کے بعد ایسا کوئی شخص نہ ہوگا جسے ڈاکٹری نہ سیکھنے پر، انجینئر نہ بننے پر، سائنسدان نہ بننے پر افسوس ہو رہا ہو البتہ علمِ دین نہ سیکھنے پر افسوس کرنے والے بہت ہوں گے۔ بلکہ خود حدیث پاک میں موجود ہے کہ کل قیامت کے دن جن آدمیوں کو سب سے زیادہ حسرت ہوگی ان میں ایک وہ ہے جس کو دنیا میں علم حاصل کرنے کا موقع ملا اور اس نے علم حاصل نہ کیا۔(ابن عساکر، حرف المیم، محمد بن احمد بن محمد بن جعفر۔۔۔ الخ، ۵۱ / ۱۳۷)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل ِسلیم دے اور انہیں علمِ دین کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
سوال کرناعلم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوال کرنا علم حاصل ہونے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’علم خزانے ہیں اور ان خزانوں کی چابی سوال کرناہے تو تم سوال کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے ، کیونکہ سوال کرنے کی صورت میں چار لوگوں کو اجر دیاجاتا ہے۔ (1) سوال کرنے والے کو۔ (2) سکھانے والے کو۔ (3) سننے والے کو۔ (4) ان سے محبت رکھنے والے کو۔(الفقیہ والمتفقہ، باب فی السؤال والجواب وما یتعلّق بہما۔۔۔ الخ، ۲ / ۶۱، الحدیث: ۶۹۳)
حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اچھا سوال کرنا نصف علم ہے۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۵ / ۱۰۸، الحدیث: ۶۷۴۴)
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی کے تمام پہلوؤں میں در پیش معاملات کے بارے میں اہلِ علم سے سوال کرنے اور اس کے ذریعے دین کے شرعی اَحکام کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔