Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 79 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَۚ-وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا٘-وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَؕ-وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ(79)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا:اور دونوں کو حکومت اور علم عطا کیا۔} یہاں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں پر کیا جانے والا انعام ذکر کیا گیاکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حکومت اور اِجتہاد و اَحکام کے طریقوں وغیرہ کا علم عطا کیا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۴)
مُجتہد کو اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے:
یہاں ایک مسئلہ ذہن نشین رکھیں کہ جن علماء کرام کو اجتہاد کرنے کی اہلیت حاصل ہو انہیں ان اُمور میں اجتہاد کرنے کا حق ہے جس میں وہ کتاب و سنت کا حکم نہ پائیں اور اگر ان سے اجتہاد میں خطا ہو جائے تو بھی ان پر کوئی مُواخذہ نہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۴) جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور حدیث ِ پاک میں ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب حکم کرنے والا اجتہاد کے ساتھ حکم کرے اور اس حکم میں درست ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد میں خطا واقع ہو جائے تو ا س کے لئے ایک اجر ہے۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب اجر الحاکم اذا اجتہد فاصاب او اخطأ، ۴ / ۵۲۱، الحدیث: ۷۳۵۲، مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب بیان اجر الحاکم اذا اجتہد۔۔۔ الخ، ص۹۴۴، الحدیث: ۱۵(۱۷۱۶))
علمِ دین کے مالداری پر فضائل:
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علم ،مال اور بادشاہی میں (سے ایک کا) اختیار دیا گیا ،حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے علم کو اختیار فرمایا تو انہیں علم کے ساتھ مال اور بادشاہی بھی عطا کر دی گئی۔( احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الاوّل فی فضل العلم والتعلیم والتعلّم۔۔۔ الخ، فضیلۃ العلم، ۱ / ۲۳)
اس سے معلوم ہوا کہ دین کے علم کی برکت سے بندے کو دنیا میں عزت، دولت اور منصب مل جاتا ہے حتّٰی کہ بادشاہی اور حکومت تک مل جاتی ہے لہٰذا اس وجہ سے دین کا علم حاصل نہ کرنا اور اپنی اولاد کو دین کا علم نہ سکھانا کہ یہ علم سیکھ کرہم یا ہماری اولاد دنیا کی دولت اور دنیا کا چین و سکون حاصل نہیں کر سکیں گے، انتہائی محرومی کی بات ہے۔ علمِ دین کو دنیا کی دولت پر ترجیح دینے کی ترغیب کے لئے یہاں علمِ دین کے مالداری پر چند دینی اور دُنْیَوی فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…علم انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی میراث ہے اور مال بادشاہوں اور مالداروں کی میراث ہے۔
(2)…مالدار کا جب انتقال ہوتا ہے تو مال اس سے جدا ہو جاتا ہے جبکہ علم عالم کے ساتھ اس کی قبر میں داخل ہوتا ہے۔
(3)…مال مومن ،کافر، نیک، فاسق سب کو حاصل ہوتا ہے جبکہ نفع بخش علم صرف مومن کو ہی حاصل ہوتا ہے۔
(4)…علم جمع کرنے اور اسے حاصل کرنے سے بندے کو عزت ، شرف اور تزکیۂ نفس کی دولت ملتی ہے جبکہ مال کی وجہ سے تزکیۂ نفس اور باطنی کمال حاصل نہیں ہوتا بلکہ مال جمع کرنے سے نفس لالچ، بخل اور حرص جیسی بری خصلتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
(5)…علم عاجزی اور اِنکساری کی دعوت دیتا ہے جبکہ مال فخر و تکبر اور سر کشی کی دعوت دیتا ہے۔
(6)…علم کی محبت اور اس کی طلب ہر نیکی کی اصل ہے جبکہ مال کی محبت اور اس کی طلب ہر برائی کی جڑ ہے۔
(7)…مال کا جوہر بدن کے جوہر کی جنس سے ہے اور علم کا جوہر روح کے جوہر کی جنس سے تو علم اور مال میں ایسے فرق ہے جیسے روح اور جسم کے درمیان فرق ہے۔
(8)…عالم اپنے علم اور اپنے حال سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے جبکہ مال جمع کرنے والا اپنی گفتگو اور اپنے حال سے لوگوں کو دنیا کی طرف بلاتا ہے۔
(9)… بادشاہ اور دیگر لوگ عالم کے حاجت مند ہوتے ہیں ۔
(10)…علم کا اضافہ مال کے اضافے سے بہت بہتر ہے کیونکہ اگر ایک رات میں ہی سارا مال چلاجائے تو صبح تک بندہ فقیر و محتاج بن کررہ جاتا ہے جبکہ علم رکھنے والے کو فقیری کا خوف نہیں ہوتا بلکہ اس کا علم ہمیشہ زیادہ ہی ہوتا رہتا ہے اور یہی حقیقی مالداری ہے۔
(11)…مالدار کی قدرو قیمت اس کے مال کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ عالم کی قدر و قیمت ا س کے علم کی وجہ سے ہوتی ہے، چنانچہ جب مالدار کے پا س مال نہیں رہتا تو اس کی قدر و قیمت بھی ختم ہو جاتی ہے جبکہ عالم کی قدرو قیمت کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔
(12)…مال کی زیادتی ا س بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مالدار شخص لوگوں پر احسان کرے اور جب مالدار لوگوں پر احسان نہیں کرتا تو لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں جس کی وجہ سے اسے قلبی طور پر رنج پہنچتا ہے اور اگر وہ لوگوں پر احسان کرنا شروع کر دیتا ہے تو لازمی طور پر وہ ہر ایک کے ساتھ احسان نہیں کرپاتا بلکہ بعض کے ساتھ کرتا ہے اور بعض کے ساتھ نہیں کرتا اور یوں وہ محروم رہ جانے والے کی طرف سے دشمنی اورذلالت کا سامنا کرتا ہے جبکہ علم رکھنے والا کسی نقصان کے بغیر ہر ایک پر اپنا علم خرچ کر لیتا ہے۔
(13)…مالدار جب مر جاتے ہیں تو ان کا تذکرہ بھی ختم ہو جاتا ہے جبکہ علماء کا ذکرِ خیر ان کے انتقال کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے۔( اتحاف السادۃ المتقین، کتاب العلم، الباب الاول فی فضیلۃ العلم، ۱ / ۱۳۰-۱۳۱، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور علمِ دین کی اہمیت و فضیلت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ:اورہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں کو تابع بنادیا۔} یہاں حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرکیا جانے والا انعام بیان فرمایا گیاکہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو آ پ کا تابع بنادیا کہ پتھر اور پرندے آپ کے ساتھ آپ کی مُوافقت میں تسبیح کرتے تھے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۵)
{وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ:اور یہ (سب) ہم ہی کرنے والے تھے۔} یعنی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معاملہ سمجھا دینا، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوحکومت دینا اور پہاڑوں ،پرندوں کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاتابع بنا دینا، یہ سب ہمارے ہی کام تھے اگرچہ تمہارے نزدیک یہ کام بہت عجیب و غریب ہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۵، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۲۷۵، ملتقطاً)