Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 83 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(83)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَیُّوْبَ: اور ایوب کو (یاد کرو)۔}حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور آپ کی والدہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خاندان سے ہیں، اللہ تعالیٰ
نے آپ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، صورت کا حسن بھی، اولاد کی کثرت اور
مال کی وسعت بھی عطا ہوئی تھی۔ اللہ
تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوآزمائش میں مبتلا کیا، چنانچہ آ پ کی اولاد مکان گرنے سے دب کر مر
گئی، تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں، سب مر گئے ۔
تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے حتّٰی کہ کچھ بھی باقی نہ رہا اور جب
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان چیزوں کے ہلاک اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی تھی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لاتے اور فرماتے تھے’’ میرا کیا ہے! جس کا تھا اس
نے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب ا س نے چاہا لے لیا۔ اس
کا شکر ادا ہو ہی نہیں ہو سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں ۔ اس کے بعد
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام بیمار
ہوگئے ، تمام جسم شریف میں آبلے پڑگئے اور بدن مبارک سب کا سب زخموں سے بھر گیا ۔اس حال میں سب لوگوں نے چھوڑ دیا
البتہ آپ کی زوجہ محترمہ رحمت بنتِ افرائیم نے نہ چھوڑا اور وہ آپ کی خدمت کرتی
رہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی یہ حالت سالہا سال رہی
، آخر کار کوئی ایسا سبب پیش آیا کہ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے
والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ /
۲۸۶-۲۸۸، ملخصاً)
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری:
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری کےبارے میں علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عام طور پر
لوگوں میں مشہور ہے کہ مَعَاذَ اللہ آپ کو کوڑھ کی بیماری ہو گئی تھی۔ چنانچہ بعض غیر
معتبر کتابوں میں آپ کے کوڑھ کے بارے میں بہت
سی غیر معتبر داستانیں بھی تحریر ہیں، مگر
یاد رکھو کہ یہ سب باتیں سرتا پا بالکل غلط ہیں اور ہر گز ہرگز آپ یا کوئی نبی بھی کبھی کوڑھ اور جذام کی
بیماری میں مبتلا نہیں ہوا، اس لئے کہ یہ مسئلہ مُتَّفَق علیہ ہے کہ اَنبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا تمام اُن بیماریوں سے محفوظ رہنا ضروری ہے جو عوام کے نزدیک باعث
ِنفرت و حقارت ہیں ۔ کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ
السَّلَام کا یہ فرضِ منصبی
ہے کہ وہ تبلیغ و ہدایت کرتے رہیں تو ظاہر ہے کہ جب عوام ان کی بیماریوں
سے نفرت کر کے ان سے دور بھاگیں
گے تو بھلا تبلیغ کا فریضہ کیونکر ادا ہو سکے گا؟ الغرض حضرت ایوب عَلَیْہِ السَّلَام ہرگز کبھی کوڑھ اور جذام کی بیماری میں
مبتلا نہیں ہوئے بلکہ آپ کے بدن پر کچھ آبلے اور پھوڑے پھنسیاں نکل
آئی تھیں جن سے آپ برسوں تکلیف اور
مشقت جھیلتے رہے اور برابر صابر و شاکر رہے۔( عجائب القرآن مع غرائب القرآن، حضرت
ایوب علیہ السلام کا امتحان، ص۱۸۱-۱۸۲) یونہی بعض کتابوں
میں جو یہ واقعہ مذکور ہے کہ بیماری کے دوران حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم مبارک میں کیڑے پیدا ہو گئے
تھے جو آپ کا جسم شریف کھاتے تھے، یہ بھی درست نہیں کیونکہ ظاہری جسم میں
کیڑوں کا پیدا ہونا بھی عوام کے لئے نفرت و حقارت کا باعث ہے اور لوگ
ایسی چیز سے گھن کھاتے ہیں ۔لہٰذا خطباء اور واعظین کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف ایسی چیزوں کو منسوب نہ کریں
جن سے لوگ نفرت کرتے ہوں اور وہ منصبِ نبوت کے تقاضوں کے خلاف
ہو۔
آزمائش و امتحان ناراضی
کی دلیل نہیں :
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ کے مقرب بندوں کو آزمائش و امتحان میں مبتلا فرماتا ہے اور ان
کی آزمائش اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہے بلکہ یہ ان کی اللہ تعالیٰ
کی بارگاہ میں عزت و قرب کی دلیل ہے۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش کس پر ہوتی ہے؟
آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّبِین کی۔ آدمی کی
آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو سخت
آزمائش ہوتی ہے اور اگر وہ دین میں کمزور ہو تو دین کے حساب سے آزمائش کی
جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ
رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ /
۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۶)
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے ارشاد فرمایا ’’بڑا
ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے،اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ
محبت فرماتا ہے تو انہیں آزماتا ہے،پس جو اس پر راضی ہو اس کے لئے(اللہ تعالیٰ کی )رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی
البلاء، ۴ /
۱۷۸، الحدیث: ۲۴۰۴)
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے معلوم ہونے
والے مسائل:
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جیسے دعا کی اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کے الفاظ سے معلوم
ہوتا ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنا بھی دعا ہے، اور
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی
دعا ہے۔
(2)… دعا کے وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے ۔
(3)… دعا میں اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد کرنی چاہیے جو دعا کے موافق
ہو، جیسے رحمت طلب کرتے وقت رحمٰن ورحیم کہہ کر پکارے۔