Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 84 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ(84)
تفسیر: صراط الجنان
{فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ:تو ہم نے اس کی دعا سن لی۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف تھی وہ ا س طرح دور کردی کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’ آپ زمین میں پاؤں ماریئے۔ انہوں نے پاؤں مارا تو ایک چشمہ ظاہر ہوا ،آپ کو حکم دیا گیا کہ اس سے غسل کیجئے ۔ آپ نے غسل کیا تو ظاہرِ بدن کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں ، پھر آپ چالیس قدم چلے، پھر دوبارہ زمین میں پاؤں مارنے کا حکم ہوا، آپ نے پھر پاؤ ں مارا تو اس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی انتہائی سرد تھا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس پانی کو پیا تو اس سے بدن کے اندر کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اعلیٰ درجے کی صحت حاصل ہوئی۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۲۹۱)
{وَ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ:اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔} حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور اکثر مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام اولاد کو زندہ فرما دیا اور آپ کو اتنی ہی اولاد اور عنایت کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی دوسری روایت میں ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زوجہ محترمہ کو دوبارہ جوانی عنایت کی اور ان کے ہاں کثیر اولادیں ہوئیں ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہ عطا اپنی طرف سے ان پررحمت فرمانے اور عبادت گزاروں کو نصیحت کرنے کیلئے فرمائی تاکہ وہ اس واقعہ سے آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبر کرنے اور اس صبرکے عظیم ثواب سے باخبر ہوں اور صبر کرکے اجر وثواب پائیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۲۹۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۷۲۴، ملتقطاً)
مصیبت پر صبر کرنے کا ثواب:
آیت کی مناسبت سے یہاں مصیبت پر صبر کرنے کے ثواب پر مشتمل 3 اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضر ت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مومن مرد اور مومنہ عورت کو اس کی جان، اولاد اور مال کے بارے میں آزمایاجاتارہے گایہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہ ہوگا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۷)
(2)…حضرت ابو ذررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’دنیا سے بے رغبتی صرف حلال کو حرام کر دینے اور مال کو ضائع کردینے کا ہی نام نہیں ،بلکہ دنیا سے بے رغبتی یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے وہ اس سے زیادہ قابلِ اعتماد نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور جب تجھے کوئی مصیبت پہنچے تواس کے ثواب (کے حصول) میں زیادہ رغبت رکھے اور یہ تمنا ہو کہ کاش یہ میرے لئے باقی رہتی۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الزہادۃ فی الدنیا، ۴ / ۱۵۲، الحدیث: ۲۳۴۷)
(3)…سنن ابو داؤد میں ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بندے کے لیے کوئی درجہ مقدر ہوچکا ہو جہاں تک یہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتاتو اللہ تعالیٰ اسے اس کے جسم یا مال یا اولاد کی آفت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اسے اس پر صبر بھی دیتا ہے حتّٰی کہ وہ اس درجے تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے مقدر ہوچکا۔( ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب الامراض المکفّرۃ للذنوب، ۳ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۰۹۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں آفات وبَلِیّات سے محفوظ فرمائے اور ہر آنے والی مصیبت پر صبر کر کے اجر وثواب کمانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔