Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 24 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(24)
تفسیر: صراط الجنان
{اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ:اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو۔}اس آیت میں واحد کا صیغہ ’’دَعَا‘‘ ا س لئے ذکر کیا گیا کہ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بلانا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کا بلانا ہے۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۱۸۸)
رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب بھی بلائیں تو ان کی بارگاہ میں حاضر ہونا ضروری ہے:
اس آیت سے ثابت ہو اکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حا ضر ہو جائے چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو۔ بخاری شریف میں ہے،حضرت ابوسعید بن معلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں مسجدِ نبوی میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے رسُولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بلایا، لیکن میں آپ کے بلانے پر حاضر نہ ہوا ۔ (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) میں نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ
’’اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ اور رسول کے بلانے پر حاضر ہو جایا کروجب وہ تمہیں بلائیں۔ (بخاری، باب ما جاء فی فاتحۃ الکتاب، ۳ / ۱۶۳، الحدیث: ۴۴۷۴)
ایسا ہی واقعہ ایک اور حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت اُبَی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف تشریف لائے اور انہیں آواز دی ’’اے اُبَی! حضرت اُبَی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف دیکھا لیکن کوئی جواب نہ دیا، پھر مختصر نماز پڑھ کر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ‘‘ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’وَعَلَیْکَ السَّلَامْ‘‘ اے اُبَی! جب میں نے تمہیں پکارا تو جواب دینے میں کونسی چیز رکاوٹ بنی۔ عرض کی:یا رسولَ اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم نے قرآنِ پاک میں یہ نہیں پایا کہ
’’اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔
عرض کی: ہاں یا رسولَ اللہ ! اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آئندہ ایسا نہ ہو گا۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب، ۴ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۸۸۴)
{لِمَا یُحْیِیْكُمْ:اس چیز کے لئے جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔} زندگی دینے والی چیز کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے ا یمان مراد ہے کیونکہ کافر مردہ ہوتا ہے ا یمان سے اس کوزندگی حاصل ہوتی ہے۔حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ چیز قرآن ہے کیونکہ اس سے دِلوں کی زندگی ہے اور اس میں نجات ہے اور دونوں جہان کی حفاظت ہے۔ حضرت محمد بن اسحاق رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ وہ چیز جہاد ہے کیونکہ اس کی بدولت اللہ تعالیٰ ذلت کے بعد عزت عطا فرماتا ہے۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ وہ چیز شہادت ہے ، کیونکہ شہداء اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۱۸۸)