Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 33 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(33)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ:اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے ۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ جس عذاب کا کفار نے سوال کیا وہ عذاب انہیں دے جب تک اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم ان میں تشریف فرما ہو، کیونکہ آپ رحمۃٌ لِلعالَمین بنا کر بھیجے گئے ہو اور سنتِ اِلٰہیہ یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں اس کے نبی موجود ہوں ان پر عام بربادی کا عذاب نہیں بھیجتا کہ جس سے سب کے سب ہلاک ہوجائیں اور کوئی نہ بچے۔( جلالین، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۵۰، مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۴۱۲، ملتقطاً)
مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔ پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی اور کچھ مسلمان رہ گئے جو اِستغفار کیا کرتے تھے تو ’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘ جب تک استغفار کرنے والے ایماندار موجود ہیں اس وقت تک بھی عذاب نہ آئے گا ۔ نازل ہوئی۔ پھر جب وہ حضرات بھی مدینہ طیبہ کو روانہ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے فتحِ مکہ کا اذن دیا اور یہ عذاب ِمَوعود آگیا جس کی نسبت اگلی آیت میں فرمایا ’’وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ‘‘۔ حضرت محمد بن اسحاق رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ ’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ‘‘ بھی کفار کا مقولہ ہے جو ان سے حکایۃً ذکرکیا گیا ،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُن کی جہالت کا ذکر فرمایا کہ اس قدر احمق ہیں کہ آپ ہی تو یہ کہتے ہیں کہ یارب اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر نازل کر اور آپ ہی یہ کہتے ہیں کہ اے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)جب تک آپ ہیں عذاب نازل نہ ہوگا کیونکہ کوئی اُمت اپنے نبی کی موجودگی میں ہلاک نہیں کی جاتی۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۱۹۳)
اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اَنْتَ فِیْهِمْ نے عَدُوْ کو بھی لیا دامن میں
عیشِ جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرما تے ہیں اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۱۹۳)
احادیث میں استغفار کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے مجھ پر دو امن(والی آیات ) اتاری ہیں ، ایک’’ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ‘‘ اور دوسری’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘ جب میں اس دنیا سے پردہ کر لوں گا تو قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑ دوں گا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، ۵ / ۵۶، الحدیث: ۳۰۹۳)
(2)…حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: شیطا ن نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں ، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔ (مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، ۴ / ۵۹، الحدیث: ۱۱۲۴۴)
(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)