Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 45 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(45)
تفسیر: صراط الجنان
{اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا:جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کو بیان فرمایا جو ا س نے جنگِ بدر میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو عطا فرمائی تھیں اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کے دوآداب تعلیم فرمائے ہیں۔
پہلا ادب: جنگ میں ثابت قدم رہنا۔ ابتداء ً مسلمانوں کو جنگ یاکسی بھی آزمائش کی تمنا نہیں کرنی چاہئے لیکن جب ان پر جنگ مُسلَّط ہو جائے تو اب ان پر لازم ہے کہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور بزدلی نہ دکھائیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم دشمنوں سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو اور جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یاد کرو۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الجہاد، باب کیف یصنع بالذی یغلّ، ۵ / ۱۷۰، الحدیث: ۹۵۸۱) اور جنگ میں ثابت قدم رہنے کی فضیلت کے بارے میں حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے دشمن کے مقابلے میں صبر کیا یہاں تک کہ وہ شہید کر دیا گیا یا اس نے دشمنوں کو قتل کر دیا تو وہ فتنۂ قبر میں مبتلا نہ ہو گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ موسیٰ، ۶ / ۱۲۹، الحدیث: ۸۲۴۳)
دوسرا ادب: لڑائی کے دوران کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔ دورانِ جنگ دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور زبان پہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر ہونا چاہئے ۔ حضرت ابو مجلز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دشمن سے مقابلہ کرتے تو یوں دعا مانگتے ’’اے اللہ! تومیری طاقت اور مددگار ہے، میں تیری مدد سے پھرتا ہوں اور تیری مدد سے حملہ کرتا اور تیری مدد سے قِتال کرتا ہوں۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الجہاد، باب کیف یصنع بالذی یغلّ، ۵ / ۱۶۹، الحدیث: ۹۵۸۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو انتہائی شدید حالت میں بھی ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ ہر حال میں انسان کا دل اور اس کی زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے۔ اگر ایک شخص مغرب سے مشرق تک اپنے اَموال کی سخاوت کرے اور دوسرا شخص مشرق سے مغرب تک تلوار سے جہاد کرتا جائے تب بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرنے والے کا درجہ اور اجر اِن سے زیادہ ہو گا۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۴۸۹)
یاد رہے کہ دورانِ جنگ زیادہ تر ذکر زبان سے ہوگا کہ دل عام طور پر سامنے والے سے مقابلے میں مشغول ہوتا ہے۔