ترجمہ: کنزالایمان
اور اگر وہ تمہیں فریب دیا چاہیں تو بیشک اللہ تمہیں کافی ہے وہی ہے جس نے تمہیں زور دیا اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (اے حبیب!) اگر وہ تمہیں دھوکہ دینا چاہیں گے تو بیشک اللہ تمہیں کافی ہے۔وہی ہے جس نے اپنی مدد اور مسلمانوں کے ذریعے تمہاری تائید فرمائی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ یُّرِیْدُوْۤا
اَنْ یَّخْدَعُوْكَ:اور اگر وہ تمہیں دھوکہ دینا چاہیں گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ، اگر کفار دھوکہ دینے کے لئے
صلح کی پیش کش کریں تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے فریب سے بچائے گا کہ تمہیں کسی طریقہ سے خبر دے
دے گا۔
{هُوَ الَّذِیْۤ اَیَّدَكَ
بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ:وہی ہے جس نے اپنی مدد اور مسلمانوں کے ذریعے تمہاری تائید فرمائی۔} بدرمیں اللہ تعالیٰ کی مدد تو وہ تھی جو فرشتوں کے ذریعے
آئی اور مسلمانوں کے ذریعے مدد وہ تھی جو مہاجرین و انصار کے ذریعے پہنچی۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد فرشتوں کے ذریعے بھی ہوتی ہے اور
نیک بندوں کے ذریعے بھی، نیز ظاہری اسباب کے ساتھ بھی ہوتی ہے اور ظاہری اسباب سے
ہٹ کر بھی۔
صحیح قول کے مطابق یہ
سورت مدنی ہے۔اور ایک قول یہ ہے کہ یہ سورت ان سات آیتوں کے علاوہ مدنی ہے جو مکہ
مکرمہ میں نازل ہوئیں اور وہ آیت نمبر 30 ’’وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ‘‘ سے شروع ہوتی
ہیں۔ (خازن، تفسیر سورۃ الانفال،۲ /
۱۷۴)
اَنفال نَفَل کی جمع ہے
اور اس کا معنی ہے غنیمت کا مال، اس سورت کی پہلی آیت میں اَنفال یعنی مالِ غنیمت
کے احکام کے بارے میں مسلمانوں کے سوال اور انہیں دئیے جانے والے جواب کا ذکر ہے،
اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اَنفال‘‘ رکھا گیا۔
اس سورت کا مرکزی مضمون
یہ ہے کہ اس میں مالِ غنیمت کے احکام ، غزوۂ بدر کا تفصیلی واقعہ اور اس کی
حکمتیں بیان کی گئیں اور مسلمانوں کو جنگ کے اصول سکھائے گئے ہیں۔اس کے علاوہ
اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …اللہ تعالیٰ اور اس
کے حبیب صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنے کا حکم دیا
گیا اور خوفِ خدا کی فضیلت بیان کی گئی۔
(2)…مکہ مکرمہ سے ہجرت
کے وقت تاجدارِ رسالتصَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف کفار کی سازش
اور اللہ تعالیٰ کا
اپنے حبیب صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی سازش سے محفوظ
رکھنے کا بیان ہے۔
(3) … ہر چیز میں ضروری
اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر توکل
کرنے کا حکم دیاگیا۔
(4) …مسلمانوں کو کفار کے ساتھ
کئے ہوئے معاہدے پورے کرنے اور معاہدہ توڑنے پر ان کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا
گیا۔
(5) …کفار کے ساتھ جہاد کرنے
کے مقاصد بیان کئے گئے۔
(6) …کفار کے دلوں میں دھاک
بٹھانے کے لئے مسلمانوں کو جنگی ساز و سامان کی بھر پور تیاری کا حکم دیا گیا۔
(7) …اس سورت کے آخر میں
قیدیوں کے بارے میں احکام اور مہاجرین و انصار کے مجاہدوں کے فضائل بیان کئے گئے۔
سورۂ اَنفال کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اعراف‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اعراف میں مشہور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اپنی قوموں کے ساتھ حالات بیان کئے گئے تھے اور سورۂ اَنفال میں
سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اپنی قوم کے ساتھ
حالات بیان کئے گئے ہیں۔