banner image

Home ur Surah Al Ankabut ayat 60 Translation Tafsir

اَلْعَنْـكَبُوْت

Al Ankabut

HR Background

وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ﰮ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ ﳲ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(60)

ترجمہ: کنزالایمان اور زمین پر کتنے ہی چلنے والے ہیں کہ اپنی روزی ساتھ نہیں رکھتے الله روزی دیتا ہے اُنہیں اور تمہیں اور وہی سنتا جانتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور زمین پر کتنے ہی چلنے والے ہیں جو اپنی روزی ساتھ اٹھائے نہیں پھرتے (بلکہ) الله (ہی) انہیں اور تمہیں روزی دیتا ہے اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا: اور زمین پر کتنے ہی چلنے والے ہیں  جو اپنی روزی نہیں  اٹھائے پھرتے۔} شانِ نزول: مکہ مکرمہ میں  ایمان والوں  کو مشرکین دن رات طرح طرح کی ایذائیں  دیتے رہتے تھے۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے کو فرمایا تو اُن میں  سے بعض نے عرض کی : ہم مدینہ شریف کیسے چلے جائیں ، نہ وہاں  ہمارا گھر ہے نہ مال،وہاں  ہمیں  کون کھلائے اور پلائے گا؟ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اورارشاد فرمایا گیا کہ بہت سے جاندار ایسے ہیں  جو اپنی روزی ساتھ نہیں  رکھتے اور نہ ہی وہ اگلے دن کے لئے کوئی ذخیرہ جمع کرتے ہیں  جیسا کہ چوپائے اور پرندے ، اللہ تعالیٰ ہی انہیں  اور تمہیں  روزی دیتا ہے لہٰذاتم جہاں  بھی ہو گے وہی تمہیں  روزی دے گا تو پھر یہ کیوں  پوچھ رہے ہو کہ ہمیں  کون کھلائے اور پلائے گا؟ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ،کمزور اور طاقتور، مقیم اور مسافر سب کو وہی روزی دیتا ہے اور وہی تمہارے اقوال کوسننے والا اور تمہارے دلوں  کی بات کو جاننے والا ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۴۵۵، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۹۷-۸۹۸، ملتقطاً)

رزق کے معاملے میں  اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی ترغیب:

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کے معاملے میں  خاصطور پر اپنے رزق کی فکر نہیں  کرنی چاہئے بلکہ ساری مخلوق کو رزق سے نوازنے والے رب تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے، وہی حقیقی طور پر رزق دینے والا ہے اور وہ ہر جگہ اپنی مخلوق کو رزق دینے پر قدرت رکھتا ہے۔ حضرت عمربن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسا توکل کرو جیسا ہونا چاہیے تو وہ تمہیں  ایسے روزی دے گا جیسے پرندوں  کو دیتا ہے کہ صبح بھوکے خالی پیٹ اُٹھتے ہیں  اور شام کوپیٹ بھرکر واپس آتے ہیں ۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب فی التوکّل علی اللّٰہ، ۴ / ۱۵۴، الحدیث: ۲۳۵۱)

            ہمارے معاشرے میں  یہ صورتِ حال انتہائی افسوسناک ہے کہ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے ہوئے دین کے احکام پر عمل کرنا شروع کرتے ہیں  تو کچھ لوگ اپنی شفقت و نصیحت کے دریا بہاتے ہوئے انہیں  سمجھانا شروع کر دیتے ہیں  کہ بیٹا اگر تم نمازی اور پرہیز گار بن گئے اور داڑھی رکھ لی تو کمائی کس طرح کرو گے اور کماؤ گے نہیں  تو اپنا اور بیوی بچوں  کا پیٹ کس طرح پالو گے ،اسی طرح اگر تم دُنْیَوی علوم چھوڑ کر دین کا علم سیکھنے لگ جاؤ گے تو بھوکے مرو گے اور تمہیں  لوگوں  کے دئیے ہوئے صدقات و خیرات پر گزارا کرنا پڑے گا۔ اے کاش یہ لوگ اتنی بات سمجھ سکتے کہ حقیقی طور پر رزق دینے والا کوئی اور نہیں  بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وہ مخلوق پر اتنا مہربان ہے کہ اپنی نافرمانی کرنے والوں  کو بھی رزق سے محروم نہیں  کرتا بلکہ انہیں  بھی کثیر رزق عطا فرماتا ہے تو جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ اپنے رزق کے دروازے کیسے بندکر دے گا،ہاں  اگر رزق میں  تنگی کر کے ا س کی آزمائش کرنا مقصود ہوا تو یہ دوسری بات ہے لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت رزق کی بندش کا سبب ہر گز نہیں  بلکہ رزق ملنے کا عظیم ذریعہ ہے ۔