banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 184 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْاٚ-مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(184)

ترجمہ: کنزالایمان کیا سوچتے نہیں کہ ان کے صاحب کوجنون سے کچھ علاقہ نہیں وہ تو صا ف ڈر سنانے والے ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا وہ غوروفکر نہیں کرتے کہ ان کے صاحب کے ساتھ جنون کا کوئی تعلق نہیں ، وہ تو صا ف ڈرسنانے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ:ان کے صاحب کے ساتھ جُنون کا کوئی تعلق نہیں۔{کفارِ مکہ میں سے بعض جاہل قسم کے لوگ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      کی طرف جنون کی نسبت کرتے تھے، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سیدُ الانبیاء  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے افعال کفار کے افعال سے جدا تھے کیونکہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     دنیا اور اس کی لذتوں سے منہ پھیر کر آخرت کی طرف متوجہ تھے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور اس کا خوف دلانے میں شب و روز مشغول تھے، یوں نبی اکرم    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل ان کے طریقے کے مخالف ہوا تو انہوں نے آپ   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو  مجنون سمجھا۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے  ہیں ’’نبی کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   رات کے وقت کوہِ صفا پر چڑھ کر قبیلے قبیلے کو پکارتے ہوئے فرماتے ’’اے بنی فلاں! اے بنی فلاںاللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے ڈراتے  تو  کفار میں سے کوئی کہتا کہ تمہارے صاحب مجنون ہیں ،رات سے لے کر صبح تک چلاتے رہتے ہیں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے تاجدارِ رسالت   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے  معمولات میں انہیں غورو تَفکر کرنے کی دعوت دی تا کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ نبی اکرم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کسی جنون کی وجہ سے نہیں بلکہ انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے لئے پکارتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وحی نازل ہوتے وقت رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر عجیب حالت طاری ہوتی، چہرہ مُتَغَیّر ہوجاتا، رنگ پیلا پڑ جاتا اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آپ پر غشی طاری ہو۔ یہ دیکھ کر جاہل لوگ آپ کی طرف جنون کی نسبت کرتے۔اللہ تعالیٰ نے ان جاہلوں کا رد کرتے ہوئے اس آیت میں فرمایا کہ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کسی قسم کا جنون نہیں یہ تو انہیں   اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے فصیح  الفاظ کے ساتھ قطعی دلائل پیش کرتے ہیں ،ان کی فصاحت کا مقابلہ کرنے سے پوری دنیائے عرب عاجز آ چکی ہے۔ میرے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے اخلاق بہت عمدہ اور مُعاشرت بڑی پاکیزہ ہے،ان کی ہر عادت و خصلت انتہائی نیک ہے ہمیشہ اچھے کام کرتے ہیں اور اسی وجہ سے تمام عقلمندوں کے مُقتدا و پیشوا ہیں اور یہ بالکل بدیہی بات ہے کہ جو انسان عمدہ اور پاکیزہ شخصیت کا حامل ہو اسے مجنون قرار دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۴، ۲ /۱۶۵ ، تفسیر کبیر، الاعراف،  تحت الآیۃ: ۱۸۴، ۵ ۴۲۰)