banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 201 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ(201)

ترجمہ: کنزالایمان بیشک وہ جو ڈر والے ہیں جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے ہوشیار ہوجاتے ہیں اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک پرہیزگاروں کوجب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آتا ہے تو وہ (حکمِ خدا) یاد کرتے ہیں پھر اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا:بیشک وہ جو ڈر والے ہیں۔} آیت میں مذکور لفظ’’طٰٓىٕفٌ‘‘ کے بارے میں علامہ راغب اصفہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ انسا ن کو ورغلانے کیلئے انسان کے گرد گردش کرنے والے شیطان کوطائف کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الطاء، ص۵۳۱، تحت اللفظ: طوف) اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو متقی اور پرہیز گار ہیں جب شیطان کی طرف سے انہیں گناہ کرنے یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت چھوڑنے کا کوئی وسوسہ آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ  کی قدرت اورا س کے انعامات میں غور کرتے ہیں اور ا س کے عذاب اور ثواب کو یاد کرتے ہیں اور اسی وقت گناہ کرنے سے رک جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے گناہ سے رکنے کا حکم دیا اور گناہ کرنے سے منع کیا ہے۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۲، ۴ / ۲۵۰، الجزء السابع، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۱، ۲ / ۷۳۸، ملتقطاً)

شیطان کے وسوسے سے بچنے کا ایک طریقہ:

اس سے معلوم ہو اکہ جب شیطان دل میں گناہ کرنے کا وسوسہ ڈالے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے انعامات میں غور کرنا اور اللہ تعالیٰ کی سزا اور ا س کے ثواب کو یاد کرنا ا س وسوسے کو دور کرنے اور گناہ سے رکنے میں معاون و مددگار ہے لہٰذا جب بھی شیطان گناہ کرنے پر اکسائے تو اس وقت بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی قدرت اوراس کے انعامات و احسانات کو یاد کرے اور نافرمانی کرنے پر اس کی طرف سے ملنے والی سزا اور اطاعت کرنے کی صورت میں ا س کی طرف سے ملنے والے ثواب کویاد کرے تواِنْ شَآءَ اللہ شیطان کاوسوسہ دور ہو جائے گا اور وہ گناہ کرنے سے بچ جائے گا اور اگر شامتِ نفس سے گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے اپنے گناہ کی معافی مانگ لے ، جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ  الَّذِیْنَ  اِذَا  فَعَلُوْا  فَاحِشَةً  اَوْ  ظَلَمُوْۤا  اَنْفُسَهُمْ  ذَكَرُوا  اللّٰهَ  فَاسْتَغْفَرُوْا  لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ  مَنْ  یَّغْفِرُ  الذُّنُوْبَ  اِلَّا  اللّٰهُ  ﳑ  وَ  لَمْ  یُصِرُّوْا  عَلٰى  مَا  فَعَلُوْا  وَ  هُمْ  یَعْلَمُوْنَ‘‘(ال عمران:۱۳۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا اِرتکاب کرلیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تواللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اوراللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے برے اعمال پر اصرار نہ کریں۔

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانہ ٔمبارک میں ایک نوجوان بہت متقی و پرہیز گار وعبادت گزار تھا، حتّٰی کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی اس کی عبادت پر تعجب کیا کرتے تھے ۔وہ نوجوان نمازِ عشاء مسجد میں ادا کرنے کے بعداپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرنے کے لئے جایا کرتا تھا ۔ راستے میں ایک خوبرو عورت اسے اپنی طرف بلاتی اور چھیڑتی تھی، لیکن یہ نوجوان اس پر توجہ دئیے بغیر نگاہیں جھکائے گزر جایا کرتا تھا ۔ آخر کار ایک دن وہ نوجوان شیطان کے ورغلانے اور اس عورت کی دعوت پر برائی کے ارادے سے اس کی جانب بڑھا، لیکن جب دروازے پر پہنچا تو اسے اللہ تعالیٰ کا یہی فرمانِ عالیشان یاد آ گیا:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ‘‘ (اعراف:۲۰۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جب شیطان کی طرف سے پرہیزگاروں کو کوئی خیال آتا ہے تو وہ فوراًحکمِ خدا یاد کرتے ہیں پھراسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔

اس آیتِ پاک کے یاد آتے ہی اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدر غالب ہوا کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا ۔جب یہ بہت دیر تک گھر نہ پہنچا تو اس کا بوڑھا باپ اسے تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا اور لوگوں کی مدد سے اسے اٹھوا کر گھر لے آیا۔ ہوش آنے پر باپ نے تمام واقعہ دریافت کیا ،نوجوان نے پورا واقعہ بیان کر کے جب اس آیت ِ پاک کا ذکر کیا، تو ایک مرتبہ پھر اس پراللہ تعالیٰ کا شدید خوف غالب ہوا ،اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور اس کا دم نکل گیا۔ راتوں رات ہی اس کے غسل و کفن ودفن کا انتظام کر دیاگیا۔ صبح جب یہ واقعہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ اُس کے باپ کے پاس تعزیت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا کہ ’’ آپ نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی ؟(تا کہ ہم بھی جنازے میں شریک ہو جاتے)۔اس نے عرض کی ’’امیر المومنین!اس کاانتقال رات میں ہوا تھا (اور آپ کے آرام کا خیال کرتے ہوئے بتانامناسب معلوم نہ ہوا)۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے اس کی قبر پر لے چلو۔‘‘ وہاں پہنچ کر آپ نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی

’’وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ‘‘(الرحمٰن:۴۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔

            تو قبر میں سے اس نوجوان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یا امیرَالمومنین!بیشک میرے رب نے مجھے دو جنتیں عطا فرمائی ہیں۔‘‘(ابن عساکر، ذکر من اسمہ عمرو، عمرو بن جامع بن عمرو بن محمد۔۔۔ الخ، ۴۵ / ۴۵۰، ذمّ الہوی، الباب الثانی والثلاثون فی فضل من ذکر ربّہ فترک ذنبہ، ص۱۹۰-۱۹۱)