Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 204 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰیَةٍ قَالُوْا لَوْ لَا اجْتَبَیْتَهَاؕ-قُلْ اِنَّمَاۤ اَتَّبِـعُ مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْۚ-هٰذَا بَصَآىٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(203)وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(204)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ:اور جب قرآن پڑھا جائے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی عظمت بیان فرمائی تھی کہ قرآنِ پاک کی آیات تو تمہارے رب کی طرف سے آنکھیں کھول دینے والے دلائل ہیں اور ایمان لانے والے لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے اورا س آیت میں بتایا ہے کہ اس کی عظمت وشان کا تقاضا یہ ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۵ / ۴۳۹)
علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس وقت قرآنِ کریم پڑھا جائے خواہ نماز میں یا خارجِ نماز اُس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ص۴۰۱)
یاد رہے کہ اس آیتِ مبارکہ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں خطبہ کو بغور سننے اور خاموش رہنے کا حکم ہے۔اور ایک قول یہ ہے کہ اس آیت سے نماز و خطبہ دونوں میں بغور سننے اور خاموش رہنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے ۔ جبکہ جمہور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس طرف ہیں کہ یہ آیت مقتدی کے سننے اور خاموش رہنے کے باب میں ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۲ / ۱۷۲، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ص۴۰۱، ملتقطاً)
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے امام کے پیچھے قرآنِ پاک پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور کثیر احادیث میں بھی یہی حکم فرمایا گیا ہے کہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کی جائے۔ چنانچہ
(1)… حضرت بشیر بن جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نماز پڑھائی تو آپ نے کچھ لوگوں کو سنا کہ وہ نماز میں امام کے ساتھ قراء ت کررہے ہیں۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ’’ کیا ابھی تمہارے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ تم اس آیت کے معنی سمجھو۔ (تفسیر ابن جریر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۶ / ۱۶۱)
(2)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفوں کو درست کرلو، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کروائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو۔ ایک روایت میں اتنا زائد ہے کہ اور جب وہ قراء ت کرے تو تم خاموش رہو۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب التشہد فی الصلاۃ، ص۲۱۴-۲۱۵، الحدیث: ۶۲-۶۳(۴۰۴))
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’امام اسی لئے ہوتا ہے کہ اس کی اِقتداء کی جائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قراء ت کرے تو خاموش رہو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب اذا قرأ الامام فانصتوا، ۱ / ۴۶۱، الحدیث: ۸۴۶)
(4)… حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جس نے ایک رکعت بھی بغیر سورۂ فاتحہ کے پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی مگر یہ کہ امام کے پیچھے ہو۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی ترک القراء ۃ خلف الامام۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۳۸، الحدیث: ۳۱۳)
نوٹ:یہاں ایک اور مسئلہ بھی یاد رکھیں کہ بعض لوگ ختم شریف میں مل کر زور سے تلاوت کرتے ہیں یہ بھی ممنوع ہے۔