ترجمہ: کنزالایمان
اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو زاری اور ڈر سے اور بے آواز نکلے زبان سے صبح اور شام اور غافلوں میں نہ ہونا۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کروگڑگڑاتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اور بلندی سے کچھ کم آواز میں ،صبح و شام، اور غافلوں میں سے نہ ہونا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا:اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو گڑگڑاتے ہوئے۔} اس آیت میں خطاب
رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے اور اس خطاب میں امتِ مصطفٰی بھی داخل ہے کہ یہ حکم تمام
مُکَلَّفِین کو عام ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ اس آیت
میں ذکر سے مراد نماز میں قراء ت کرنا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ذکر میں تلاوت ِقرآن،
دعا اور تسبیح و تہلیل وغیرہ تمام اَذکار شامل ہیں۔ (خازن،
الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۵، ۲ /
۱۷۳،
مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۵، ص۴۰۲، ملتقطاً)
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر دل میں کیا جائے یا درمیانی آواز میں ، حد سے زیادہ
بلند آواز میں چیختے ہوئے نہ کیا جائے، نیز اللہ
تعالیٰ کا ذکر عاجزی اورخوف کے ساتھ ہو۔ نیز ذِکْرُ اللہ صبح و شام کیا جائے۔ بلند آواز سے اور آہستہ آواز سے ذکر کرنا
دونوں کے بارے میں احادیث موجود ہیں ، اگر ذکر کرنے والے کو ریاکاری کا اندیشہ ہو
یا نمازیوں اور آرام کرنے والوں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو تو آہستہ ذکر کیا
جائے ورنہ بلند آواز سے کرنے میں حرج نہیں۔
{بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ:صبح اور شام۔} ان دونوں
اوقات میں ذکر کرنا افضل ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ صبح کے وقت انسان نیند سے
بیدار ہوتا ہے تو اس وقت ذکر کرنے سے اس کے نامۂ اعمال میں سب سے پہلے اللہعَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرنا لکھا جائے گا
اور شام کے وقت انسان سوتا ہے اور نیند ایک طرح کی موت ہے، لہٰذا اس وقت بھی ذکر
کرنا مناسب ہے کہ ممکن ہے سوتے میں ہی انتقال ہو جائے، اگر ایساہوا تو قیامت کے دن
اللہعَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرتا ہوا اٹھے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ
طلوعِ فجرکے بعد طلوعِ آفتاب تک اور اسی طرح نمازِ عصر کے بعد غروب تک نفل نماز
ممنوع ہے، اس لئے ان وقتوں میں ذکر کرنا مستحب ہے تاکہ بندے کے تمام اوقات قربت و
طاعت میں مشغول رہیں۔ (صاوی، الاعراف، تحت
الآیۃ: ۲۰۵، ۲ / ۷۴۰)
نوٹ:ذکرِ جلی اور خفی سے متعلق مزید معلومات کیلئے کتاب’’جاء الحق‘‘ کا مطالعہ
کیجئے۔
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل
القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے
لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی
ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسےاللہ تعالیٰ
کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ
مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1)
…قرآن اللہ تعالیٰ
کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
(2)
…قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3)
…دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا
انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت
آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4)
… کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو
اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
(6)
…اللہ تعالیٰ
نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7)
…اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے:
(1)
حضرت نوح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔
(2)حضرت
ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(3)
حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(4)
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(5)
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
ان کی قوم کا واقعہ۔
(6)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
فرعون کا واقعہ۔
(7)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)
…اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی
کرنے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ
امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں
امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق
الدرر، سورۃ الاعراف،۸۷)