Home ≫ ur ≫ Surah Al Furqan ≫ ayat 10 ≫ Translation ≫ Tafsir
تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ-وَ یَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا(10)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ شَآءَ: اگر چاہے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ا س بات پر قادِر ہے کہ وہ اگر چاہے تو اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تمہارے لیے کافروں کے ان بیان کردہ خزانوں اور باغات سے بہتر چیزیں عطا فرما دے اور دنیا میں ایسے باغات بنادے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں اور تمہارے لئے بلندو بالا محلات بنادے لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ اپنی مَشِیَّت اور بندوں کی مَصلحت کے مطابق ان کے معاملات کی تدبیر فرماتا ہے اس لئے ا س کے کام پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں ۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۳۰۳، تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۰، ۸ / ۴۳۵، ملتقطاً)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دنیا کے مال و دولت پر فقر کو ترجیح دی :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام اتنا بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو آپ کودنیا کی بڑی سے بڑی نعمتیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ آسائشیں عطا فرما دے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آسائشوں کو پسند نہیں فرمایا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی دنیا میں فقر کو ترجیح دی، اسی سلسلے میں 2احادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت اُمِّ سلیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں:میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک زوجہ محترمہ کے حجرے میں تھی اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اپنی زوجہ محترمہ کے پاس تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے آپ سے حاجت مند ہونے کی شکایت کی۔ آپ نے اس سے ارشاد فرمایا: ’’تم صبر کرو،خدا کی قسم!محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی آل کے پاس سات دن سے کچھ نہیں ہے اور (ان کے گھروں میں ) تین دن سے ہنڈیا کے نیچے آگ نہیں جلائی گئی، اللہ کی قسم! اگر میں اللہ تعالیٰ سے تہامہ کے تمام پہاڑوں کو سونا بنا دینے کا سوال کروں تو وہ ان سب پہاڑوں کو ضرور سونا بنا دے گا۔‘‘( مجمع الزواءد، کتاب الزہد، باب فی عیش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والسلف، ۱۰ / ۵۸۳، الحدیث: ۱۸۲۸۶)
(2)…اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ اللہ تعالیٰ سے کھانا نہیں مانگتے کہ وہ آپ کو عطا کرے؟ آپ فرماتی ہیں کہ میں رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بھوک کو دیکھ کر روپڑی تھی۔حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر میں اللہ تعالیٰ سے سوال کروں کہ وہ دنیا کے پہاڑوں کو سونے کا بناکر میرے ساتھ چلائے تو میں زمین میں جہاں جاؤں اللہ تعالیٰ وہیں پہاڑوں کو سونا بنا کر میرے ساتھ چلادے گا لیکن میں نے دنیا کی بھوک کو اس کے سیر ہونے پر، دنیا کے فقر کو اس کی مالداری پر اور اس کے غم کو اس کی خوشی پر ترجیح دی ہے، اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، دنیا محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اور اِن کی آل کے لیے مناسب نہیں ۔‘‘( احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، الشطر الثانی، فضیلۃ الزہد، ۴ / ۲۷۳)