banner image

Home ur Surah Al Hajj ayat 11 Translation Tafsir

اَلْحَجّ

Al Hajj

HR Background

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍۚ- فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ ﰳاطْمَاَنَّ بِهٖۚ- وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ-ﰳانْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ۫ۚ -خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَؕ- ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ(11)

ترجمہ: کنزالایمان اور کچھ آدمی اللہ کی بندگی ایک کنارہ پر کرتے ہیں پھر اگر انہیں کوئی بھلائی بن گئی جب تو چین سے ہیں اور جب کوئی جانچ آ پڑی منہ کے بل پلٹ گئے دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا یہی ہے صریح نقصان۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور کوئی آدمی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پرہو کر کرتاہے پھر اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو وہ اس پرمطمئن ہوجاتاہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آجائے تو منہ کے بل پلٹ جاتا ہے۔ ایسا آدمی دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان اٹھاتا ہے۔یہی کھلا نقصان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ:اور کوئی آدمی وہ ہے جو  اللہ کی عبادت ایک کنارے پرہو کر کرتا ہے۔} شانِ نزول:یہ آ یت دیہات میں رہنے والے عربوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو اَطراف سے آ کر مدینہ میں داخل ہوتے اور اسلام لاتے تھے ، ان کی حالت یہ تھی کہ اگر وہ خوب تندرست رہے اور ان کی دولت بڑھی اور ان کے ہاں بیٹا ہوا تب تو کہتے تھے کہ اسلام اچھا دین ہے، اس میں آ کر ہمیں فائدہ ہوا اور اگر کوئی بات اپنی امید کے خلاف پیش آئی، مثلاً بیمار ہو گئے ،یا ان کے ہاں لڑکی پیداہو گئی، یا مال کی کمی ہوئی تو کہتے تھے :جب سے ہم اس دین میں داخل ہوئے ہیں ہمیں نقصان ہی ہوا اور اس کے بعد دین سے پھر جاتے تھے ۔ ان کے بارے میں بتایا گیا کہ انہیں ابھی دین میں ثابت قدمی حاصل ہی نہیں ہوئی اور یہ دین کے معاملے میں اس طرح شک و تَرَدُّد میں رہتے ہیں جس طرح پہاڑ کے کنارے کھڑا ہوا شخص حرکت کی حالت میں ہوتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچے تو مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں کوئی آزمائش آجائے اور کسی قسم کی سختی پیش آئے تو مُرتد ہو کر منہ کے بل پلٹ جاتے اور کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان اٹھاتے ہیں ۔ دنیا کا نقصان تو یہ ہے کہ جو ان کی امیدیں تھیں وہ پوری نہ ہوئیں اور مرتد ہو جانے کی وجہ سے ان کا خون مباح ہوا اور آخرت کا نقصان ہمیشہ کا عذاب ہے اوریہی کھلا نقصان ہے۔(خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۱۱،  ۳ / ۳۰۰-۳۰۱، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۷۳۳، ملتقطاً)

دین ِاسلام دُنْیَوی منفعت کی وجہ سے نہیں بلکہ حق سمجھ کر قبول کیا جائے:

اس سے معلوم ہواکہ انسان دین ِاسلام کوحق سمجھ کرقبول کرے اور پھر اس پرڈٹ جائے چاہے نفع ہو یا نقصان، ہرحال میں خوش رہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کاشکرا دا کرتا رہے کہ اس نے اسے اسلام جیسی عظیم لازوال دولت سے نوازا۔ اسی طرح نماز و عبادت وغیرہ کو دُنْیَوی نفع ونقصان کے ساتھ نہ تولا جائے بلکہ عبادت کی حیثیت ہی سے کیا جائے۔