Home ≫ ur ≫ Surah Al Hajj ≫ ayat 16 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ(16)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ:اور اسی طرح۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ایسے دلائل نازل فرمائے جن میں کچھ اِبہام نہیں اور جو شخص ان میں غور کرے اس شخص پرحق واضح ہوجائے ،نیزاس پر عقیدۂ توحید، قیامت اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت واضح ہو جائے، اور دلائل خواہ کتنے ہی واضح اورروشن کیوں نہ ہوں ، ہدایت اسے ہی ملتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ چاہتاہے ۔
ہدایت حاصل ہونے کا ایک عظیم ذریعہ:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ قرآنِ عظیم ہدایت ملنے، ہدایت پر ثابت قدمی عطا ہونے اور ہدایت میں اضافے کا ایک عظیم ترین ذریعہ ہے اور قرآنِ مجید سیکھنے میں مشغول ہونا اور اس کے دئیے ہوئے احکامات پر عمل کرنا ہدایت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ، لہٰذا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید پر ایمان لانے کی توفیق دی ہے اسے چاہئے کہ وہ قرآنِ کریم صحیح طریقے سے پڑھنا سیکھے ، اسے سمجھنے کی کوشش کرے ، اس میں دئیے گئے تمام اَحکامات پر عمل کرے اور جن کاموں سے منع کیا گیا ان سے باز رہے تاکہ اسے ہدایت پر ثابت قدمی نصیب ہو اور اس کی ہدایت میں مزید اضافہ بھی ہو۔
صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے کچھ قوموں کو سر بلند کرے گا اور کچھ کو گرادے گا۔( مسلم،کتاب صلاۃالمسافرین وقصرہا،باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ۔۔۔الخ،ص۴۰۷،الحدیث:۲۶۹(۸۱۷))
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’وہ لوگ جو قرآن کریم پر ایمان لائے اور انہوں نے اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا انہیں اللہ تعالیٰ سر بلند کرے گا اور جنہوں نے قرآنِ عظیم پر ایمان لانے سے اِعراض کیا اور اس کے احکامات پر عمل نہ کیا انہیں اللہ تعالیٰ گرا دے گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۱۴)
قرآن مجید کے سلسلے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا حال یہ تھا کہ وہ قرآنِ کریم کی دس آیتیں سیکھتے اور اس وقت تک دوسری آیات سیکھنے کی طرف متوجہ نہ ہوتے جب تک ان دس آیتوں کے تمام تقاضوں پر عمل نہ کر لیتے ، یونہی وہ انتہائی تنگدستی کے باوجود قرآنِ عظیم سننے سنانے اور اس کی آیات میں غوروفکر کرنے میں مصروف رہا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں غریب مہاجرین کی ایک جماعت میں جا بیٹھا جو نیم برہنہ ہونے کے باعث ایک دوسرے سے بمشکل اپنا ستر چھپاتے تھے ۔ ہم میں ایک قاری صاحب قرآنِ مجید پڑھ رہے تھے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے ، جب رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس کھڑے ہوئے تو قاری صاحب خاموش ہو گئے ۔ آپ نے سلام کیا اور ارشاد فرمایا ’’تم کیا کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ ہمیں قرآن سنا رہے ہیں اور ہم غور سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو سن رہے ہیں ۔ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ بھی شامل فرمائے جن کے ساتھ ٹھہرے رہنے کا مجھے بھی حکم دیاگیا ہے۔( ابوداؤد، کتاب العلم، باب فی القصص، ۳ / ۴۵۲، الحدیث: ۳۶۶۶) اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قرآن مجید کے احکامات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔