banner image

Home ur Surah Al Hajj ayat 37 Translation Tafsir

اَلْحَجّ

Al Hajj

HR Background

لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰـكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْؕ-وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(37)

ترجمہ: کنزالایمان اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے یونہی ان کو تمہارے بس میں کردیا کہ تم اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ تم کو ہدایت فرمائی اور اے محبوب خوش خبری سناؤ نیکی والوں کو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے ۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دیدئیے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیدو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا: اللہ کے ہاں  ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں  اورنہ ان کے خون۔}شانِ نزول: دورِجاہلیّت کے کفار اپنی قربانیوں  کے خون سے کعبہ معظمہ کی دیواروں  کو آلودہ کرتے تھے اور اسے قرب کا سبب جانتے تھے،جب مسلمانوں  نے حج کیا اور یہی کام کرنے کا ارادہ کیا تواس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ہرگز نہ ان کی قربانیوں  کے گوشت پہنچتے ہیں  اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے اور قربانی کرنے والے صرف نیت کے اِخلاص اور تقویٰ کی شرائط کی رعایت کر کے  اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں ۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۷۴۰)

اچھی نیت اور اِخلاص کے بغیر نیک عمل مقبول نہیں :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو نیک عمل اچھی نیت اور ا خلاص کے بغیر کیا جائے وہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  مقبول نہیں۔ نیت و اِخلاص کی اہمیت بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اہلِ دل لوگوں  پر ایمانی بصیرت اور انوارِ قرآن کی وجہ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اَبدی سعادت تک رسائی کے لئے علم اور عبادت ضروری ہے،چنانچہ علم والوں  کے علاوہ تمام لوگ ہلاک ہونے والے ہیں  اور عمل کرنے والوں  کے علاوہ تمام علماء ہلاک ہونے والے ہیں  اور مخلص لوگوں  کے علاوہ تما م عمل کرنے والے بھی ہلاک ہونے والے ہیں  جبکہ مخلص لوگوں  کو بھی بڑا خطرہ ہے(کیونکہ انہیں  اپنے خاتمے اور اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر کا علم نہیں ) اورنیت کے بغیر عمل محض مشقت اور اخلاص کے بغیر نیت ریاکاری ہے اور یہ منافقت کے لئے کافی اور گناہ کے برابر ہے جبکہ صداقت کے بغیر اخلاص گرد و غبار کے ذرّات ہیں  کیونکہ ہر وہ عمل جو  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے ارادے سے کیا جائے اور اس میں  نیت خالص نہ ہو تواس کے بارے میںاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

’’وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا‘‘(فرقان:۲۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور انہوں  نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں  کی طرح (بے وقعت) بنادیں  گے جو روشندان کی دھوپ میں  نظر آتے ہیں ۔

تو جو شخص نیت کی حقیقت سے واقف نہ ہو ا س کی نیت کیسے صحیح ہو گی؟ یا جس کی نیت درست ہو وہ اخلاص کی حقیقت سے آگاہ ہوئے بغیر مخلص کیسے ہو گا؟ یا وہ شخص جو صداقت کے مفہوم سے آگاہی نہ رکھتا ہو وہ اپنے نفس سے صداقت کا مطالبہ کیسے کرے گا؟ لہٰذا جو شخص  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ارادہ رکھتا ہو اس کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نیت کا علم حاصل کرے تاکہ اسے نیت کی معرفت حاصل ہو ،پھر صداقت اور اخلاص کی حقیقت سے آگاہ ہو کر عمل کے ذریعے نیت کو صحیح کرے کیونکہ بندے کی نجات اور چھٹکارے کا وسیلہ یہی دو باتیں (صداقت اور اخلاص) ہیں ۔(احیاء علوم الدین، کتاب النیۃ والاخلاص والصدق، ۵ / ۸۶)

نیت ،اخلاص اور صداقت کے بارے میں  تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کی تصنیف ’’احیاء العلوم ‘‘([1]) کی چوتھی جلد سے ان ابواب کا مطالعہ کریں  تاکہ ان کی معرفت حاصل ہو۔

{كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ:اسی طرح ہم نے یہ جانور تمہارے قابو میں  دیدئیے۔}ارشاد فرمایا کہ اسی طرح ہم نے یہ جانور تمہارے قابو میں  دیدئیے تا کہ اس سے تمہیں   اللہ تعالیٰ کی عظمت معلوم ہو کہ اس نے ان جانوروں  کو تمہارے قابو میں  دیدیا جنہیں  لوگوں  کے قابو میں  دینے پر ا س کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں  اور اس بات پر تم  اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں  ان جانوروں  کو مُسَخَّر کرنے اور ان کے ذریعے تقرب حاصل کرنے کے طریقے کی ہدایت دی اور اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں  کو اعمال مقبول ہونے کی خوشخبری اور جنت کی بشارت دے دیں  جو نیک کام کرنے میں  مخلص ہیں۔(روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۷، ۶ / ۳۶)

حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ اور ایک حاجی:

یہاں  حج سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں  مکہ مکرمہ کی طرف نکلا تو راستے میں  ایک نوجوان کو دیکھا ،جس کا معمول یہ تھا کہ رات کے وقت اپنے چہرے کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا:اے وہ ذات ! جو نیکیوں  سے راضی ہو تی ہے اور بندوں  کے گناہ اسے کوئی نقصان نہیں  دیتے ،مجھے ان اعمال کی توفیق دے جن سے تو راضی ہو جائے اور میرے ان اعمال کو بخش دے جن سے تیرا کوئی نقصان نہیں  ہوتا۔ پھر جب لوگوں  نے اِحرام باندھا اور تَلْبِیَہ پڑھا تو میں  نے ا س نوجوان سے کہا:تم تلبیہ کیوں  نہیں  پڑھتے؟اس نے عرض کی: یا شیخ!پچھلے گناہوں  اور لکھ دئیے گئے جرموں  کے مقابلے میں تلبیہ کافی نہیں  ، میں  اس بات سے ڈرتا ہوں  کہ میں  لبیک کہوں  اور مجھ سے یہ کہہ دیا جائے کہ تیری حاضری قبول نہیں ، تیرے لئے کوئی سعادت نہیں  ،میں  نہ تیرا کلام سنوں  گا اور نہ تیری طرف نظر ِرحمت فرماؤں  گا۔پھر وہ نوجوان چلا گیا اور اس کے بعد میں  نے اسے مِنیٰ میں  ہی دیکھا اور اس وقت وہ کہہ رہاتھا:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے بخش دے ،بے شک لوگوں  نے قربانیاں  کر لیں  اور تیری بارگاہ میں  نذرانہ پیش کر دیا اور میرے پاس میری جان کے علاوہ اورکوئی چیز نہیں  جسے میں  تیری بارگاہ میں  نذر کروں  تو تُو میری طرف سے میری جان قبول فرما لے۔پھر اس نوجوان نے ایک چیخ ماری اور اس کی روح قَفسِ عُنْصُری سے پرواز کر گئی۔(روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۷، ۶ / ۳۶-۳۷)


[1] ۔۔۔دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے احیاء العلوم (مترجم) کی جلد 04 اورجلد 05 ہدیۃً حاصل کر کے مطالعہ فرمائیں ۔