Home ≫ ur ≫ Surah Al Hajj ≫ ayat 38 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ(38)
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: بیشک اللہ مسلمانوں سے بلائیں دور
کرتا ہے ۔} مشرکوں نے حُدَیْبیہ کے سال سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو حج کرنے سے روک دیاتھا
اور جو صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُمْ مکہ مکرمہ میں موجود تھے انہیں وہ طرح طرح کی
اَذِیَّتیں اور تکلیفیں دیا کرتے تھے، چنانچہ حج کے لَوازمات اور مَناسِک
بیان فرمانے کے بعد ان آیات میں اللہ تعالیٰ
نے مسلمانوں کو یہ بشارت دی کہ بیشک اللہ تعالیٰ
مسلمانوں پر آنے والی بلائیں ان سے دور کردے گا اور مشرکوں کے خلاف ان کی مدد
فرمائے گا۔(البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ /
۳۴۶)
عزت ونصرت بالآخر
مسلمانوں کے لئے ہے:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے
نزول کا سبب اگرچہ خاص ہے لیکن اعتبار الفاظ کے عموم کا ہے ،اس لئے مسلمان اگرچہ
بلاؤں اور مصیبتوں وغیرہ سے آزمائے جائیں بالآخر عزت،نصرت اور بڑی کامیابی
مسلمانوں کے لئے ہے اور یہ مصیبتیں ان کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا
ذریعہ ہیں۔(صاوی، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۱۳۴۰-۱۳۴۱) خیال رہے کہ نیک اعمال کی
برکت سے یا محبوب بندوں کے طفیل اور بارہامحض اپنے کرم سے اللہ تعالیٰ
دنیا میں بھی مسلمانوں سے بلائیں ٹالتا ہے اور آخرت میں بھی ٹالے گا،جیسا کہ
قرآنی آیات اور صحیح اَحادیث سے ثابت ہے۔
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ:بیشک اللہ ہر
بڑے بددیانت، ناشکرے کو پسند نہیں فرماتا۔}یعنی اللہ تعالیٰ
ان کفار کو پسند نہیں فرماتا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کے ساتھ کفر کر کے ان کی
خیانت اور خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ
انہیں اس عمل پر سزا دے گا۔(جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۲۸۲، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۳۱۰، ملتقطاً)