Home ≫ ur ≫ Surah Al Hajj ≫ ayat 5 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْؕ-وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْۚ-وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْــٴًـاؕ-وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍ(5)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:اے لوگو!۔} اس سے پہلی آیت میں شیطان کی پیروی کرنے پر ڈانٹا گیا اور ا س آیت میں ان لوگوں پر حجت قائم فرما ئی جا رہی ہے جومرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر ہیں ،چنانچہ اس کی پہلی دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ اے لوگو! اگر تمہیں قیامت کے دن اٹھنے کے بارے میں کچھ شک ہو تواس بات پر غور کرلو کہ ہم نے تمہاری نسل کی اصل یعنی تمہارے جَدِّ اعلیٰ ،حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مٹی سے پیدا کیا، پھران کی تمام اولاد کو منی کے قطرے سے، پھر جمے ہوئے خون سے کہ نطفہ گاڑھا خون ہو جاتا ہے ،پھر گوشت کی بوٹی سے جس کی شکل بن چکی ہوتی ہے اور ادھوری بھی ہوتی ہے سے پیدا کیا۔ انسان کی پیدائش کا حال اس لئے بیان فرمایا گیا تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی قدرت کو ظاہر فرمائیں اور تم اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے کمال کو جان لو اور اپنی پیدائش کے ابتدائی حالات پر نظر کر کے سمجھ لو کہ جو قادرِ برحق بے جان مٹی میں اتنے اِنقلاب کر کے جاندار آدمی بنا دیتا ہے وہ مرے ہوئے انسان کو زندہ کردے تو یہ اس کی قدرت سے کیا بعید ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۲۹۹-۳۰۰)
انسانی تخلیق کے مَراحل:
اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش کس طرح فرماتا ہے اور اس کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف کس طرح منتقل کرتا ہے ،اس کا کچھ بیان تو اس آیت میں ہوا اوراس کی مزید تفصیل صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے،چنانچہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم لوگوں کی پیدائش کا مادہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی صورت میں رہتا ہے، پھر اتنی ہی مدت جما ہوا خون ہو جاتا ہے، پھر اتنی ہی مدت گوشت کی بوٹی کی طرح رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کا رزق ،اس کی عمر ، اس کے عمل ، اس کا بدبخت یا سعادت مند ہونا لکھتا ہے، پھر اس میں روح پھونک دیتاہے۔( بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب خلق آدم صلوات اللہ علیہ وذرّیتہ،۲ / ۴۱۳،الحدیث: ۳۳۳۲، مسلم، کتاب القدر، باب کیفیّۃ الخلق الادمیّ فی بطن امّہ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۱، الحدیث: ۱(۲۶۴۳))
{وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ:اور ہم ماؤں کے پیٹ میں جسے چاہتے ہیں ٹھہرائے رکھتے ہیں ۔} مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایک دلیل قائم کرنے کے بعدپیدائش کے بعد کا حال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم ماؤں کے پیٹ میں جسے چاہتے ہیں اسے ولادت کی مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں ،پھر تمہیں بچے کی صورت میں نکالتے ہیں ،پھر تمہیں عمر دیتے ہیں تا کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تمہاری عقل و قوت کامل ہو اور تم میں کوئی پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور اس کو اتنا بڑھاپا آ جاتا ہے کہ عقل و حواس بجا نہیں رہتے اوربالآخر ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کی نظر کمزور، عقل ناقص اور فہم و سمجھ کم ہو جاتی ہے اور جو باتیں اسے معلوم ہوتی ہیں وہ بھول جاتا ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۰۰، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۶-۷، ملتقطاً)
انتہائی ضعیفی کی عمر میں عقل و حواس ختم ہونے سے محفوظ لوگ:
یاد رہے کہ اس آیت میں بڑھاپے کے وقت انسان کی جو حالت بیان کی گئی اس سے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام محفوظ تھے کیونکہ اگر انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی بڑھاپے میں اس حال کو پہنچ جایا کرتے تو ان پر تبلیغ فرض نہ رہتی اور نبوت سَلب کر لی جاتی کہ اس صورت میں تبلیغ میں غلطی کا احتمال تھا لیکن چونکہ وہ حضرات آخری دم تک صاحبِ وحی نبی رہے اس لئے وہ اس حال سے محفوظ تھے۔ نیز اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خاص اولیاء ِکرام کو بھی اس حال سے جدا رکھتا ہے اور ان کے علاوہ بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں انتہائی ضعیفی کے عالم میں ا س حال سے بچا لیا جاتا ہے ، چنانچہ حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو شخص تلاوتِ قرآن کا عادی ہو گا وہ اس حالت کو نہ پہنچے گا (کہ اس کی عقل اور حواس قائم نہ رہیں )۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ص۲۷۸)
اور علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ علماءِ کرام پر بھی یہ حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ جیسے جیسے ان کی عمر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ان کی عقل بھی بڑھتی جاتی ہے۔( صاوی، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۳۲۷)
نوٹ: انتہائی ضعیفی اور نکمے پن کی عمر سے متعلق کچھ کلام سورۂ نحل کی آیت نمبر 70 کی تفسیر میں گزر چکا ہے ، اسے وہاں ملاحظہ فرمائیں ۔
{وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً:اور تو زمین کو مرجھایا ہوا دیکھتا ہے۔} یہاں سے مرنے کے بعد اٹھنے پر دوسری دلیل قائم کی جا رہی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے انسان! تو زمین کو مرجھایا ہوا اور خشک دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ تر و تازہ ہوکرلہلہاتی ہے اور بڑھتی ہے اور وہ ہرقسم کا خوبصورت سبزہ اگاتی ہے تو جو قادرو برحق رب تعالیٰ مرجھائی ہوئی زمین کو سرسبز و شاداب کر سکتاہے تو وہ ان بندوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے جن کے اجزا موت کے بعد بکھر چکے ہوں۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۰۰، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۸، ملتقطاً)