Home ≫ ur ≫ Surah Al Hashr ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(1)هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَ جَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِﳳ-مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْاۗ-وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَۗ-فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ: اللّٰہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر چیز زبانِ قال یا حال سے اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے جسے ہم نہیں سمجھتے، مگر ان کی تسبیح کی تاثیر جداگانہ ہے جیسے سبزے کی تسبیح سے عذابِ قبر دور ہوتا ہے۔
{هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَ جَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: وہی ہے جس نے ان کافر کتابیوں کو نکالا۔ } شانِ نزول: مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ سورت بنو نَضِیْر کے بارے میں نازل ہوئی، یہ لوگ یہودی تھے، جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے تو اُنہوں نے حضورسے اس شرط پر صلح کی کہ نہ آپ کے ساتھ ہو کر کسی سے لڑیں گے اور نہ آپ سے جنگ کریں گے۔ جب جنگ ِبدر میں اسلام کی فتح ہوئی تو بنونضیر نے کہا: یہ وہی نبی ہیں جن کی صفت تَورات میں ہے، پھر جب اُحد میں مسلمانوں کو ہزیمت کی صورت پیش آئی تو یہ شک میں پڑے اور انہوں نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے نیاز مندوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کیا اورجو معاہدہ کیا تھا وہ توڑ دیا اور ان کا ایک سردار کعب بن اشرف یہودی چالیس یہودی سواروں کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ پہنچا اور کعبہ معظمہ کے پردے تھام کر قریش کے سرداروں سے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف معاہدہ کیا۔ اللّٰہ تعالیٰ کے علم دینے سے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس حال پر مُطّلع تھے اور بنو نضیر سے ایک خیانت اور بھی واقع ہوچکی تھی کہ انہوں نے قلعہ کے اوپر سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فاسد ارادے سے ایک پتھر گرانے کا قصد کیا،اللّٰہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبردار کردیا اور اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے آپ محفوظ رہے۔ غرض جب بنو نَضِیْر کے یہودیوں نے خیانت کی اور عہد شکنی کی اور کفارِ قریش سے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف عہد کیا تو حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت محمد بن مسلمہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا اور اُنہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کردیا، پھر حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لشکر کے ساتھ بنو نَضِیْر کی طرف روانہ ہوئے اور ان کا محاصرہ کرلیا ،یہ محاصرہ اکیس روز رہا ،اس درمیان میں منافقین نے یہود یوں سے ہمدردی اور موافقت کے بہت معاہدے کئے لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے ان سب کو ناکام کیا، یہودیوں کے دلوں میں رعب ڈالا اور آخر کار انہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے جلا وطن ہونا پڑا اور وہ شام ، اریحا اور خیبر کی طرف چلے گئے۔
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ وہی ہے جس نے بنو نضیرکے یہودیوں کو مدینہ منورہ میں موجود ان کے گھروں سے ان کے پہلے حشر کے وقت نکالا۔یہ جلاوطنی ان کا پہلا حشر ہے اور ان کادوسرا حشر یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں اپنے زمانہ ِخلافت میں خیبر سے شام کی طرف نکالا، یا دوسری تفسیر یہ ہے کہ(یہ جلاوطنی ان کاپہلاحشرہے اور)آخری حشر روزِ قیامت کا حشر ہے کہ آگ سب لوگوں کو سرزمینِ شام کی طرف لے جائے گی اور وہیں اُن پر قیامت قائم ہوگی۔ اس کے بعد اہلِ اسلام سے خطاب فرمایا جاتا ہے کہ اے مسلمانو! تمہیں گمان نہ تھا کہ وہ مدینہ منورہ سے نکلیں گے کیونکہ وہ قوت اور لشکر والے تھے، مضبوط قلعے رکھتے تھے ،اُن کی تعداد کثیر تھی، جاگیردار اور صاحب ِمال تھے اور وہ یہودی سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللّٰہ تعالیٰ سے بچالیں گے تو اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ان کے پاس وہاں سے آیا جہاں سے انہیں گمان بھی نہ تھا اور انہیں اس بات کا خطرہ بھی نہ تھا کہ مسلمان اُن پر حملہ آور ہوسکتے ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے سردار کعب بن اشرف کے قتل سے ان کے دلوں میں رعب ڈالا جس کے بعد وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے ویران کرتے اور اُنہیں ڈھاتے ہیں تاکہ جو لکڑی وغیرہ انہیں اچھی معلوم ہو وہ جلاوطن ہوتے وقت اپنے ساتھ لے جائیں جبکہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے کفار کے گھر اس طور پر ویران ہوتے ہیں کہ اُن کے مکانوں کے جو حصے باقی رہ جاتے تھے، انہیں مسلمان گرادیتے تھے تاکہ جنگ کیلئے میدان صاف ہوجائے۔ تو اے آنکھیں رکھنے والو! ان یہودیوں کے طرزِ عمل اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو اور ان جیسے افعال کرنے سے بچو۔( خازن،الحشر،تحت الآیۃ:۲، ۴ / ۲۴۴-۲۴۵، جلالین، الحشر، تحت الآیۃ: ۲، ص۴۵۴، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص۱۲۲۲-۱۲۲۳، ملتقطاً)