banner image

Home ur Surah Al Hashr ayat 16 Translation Tafsir

اَلْحَشْر

Al Hashr

HR Background

كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْۚ-فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(16)

ترجمہ: کنزالایمان شیطان کی کہاوت جب اُس نے آدمی سے کہا کفر کر پھر جب اس نے کفر کرلیا بولا میں تجھ سے الگ ہوں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہان کا رب۔ ترجمہ: کنزالعرفان جیسے شیطان کی مثال جب اس نے آدمی سے کہا: ’’ کفر کر‘‘ پھر جب اس نے کفر کرلیا تو کہا:بیشک میں تجھ سے بیزار ہوں ، بیشک میں اس اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہانوں کا رب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ: جیسے شیطان کی مثال۔} اس آیت میں  منافقوں  اور یہودیوں  کی ایک مثال بیان کی جا رہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ منافقوں  کا بنو نضیر کے یہودیوں  کے ساتھ سلوک ایسا ہے جیسے شیطان کی مثال کہ اس نے اپنے مکر و فریب سے آدمی کو کفر کرنے کا کہا اور جب اس نے کفر کرلیا تو اس سے براء ت کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ میں  تجھ سے بیزار ہوں  اوربیشک میں  اس اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہوں  جو سارے جہان کا رب ہے۔ایسے ہی منافقوں  نے بنو نضیر کے یہود یوں  کو مسلمانوں  کے خلاف اُبھارا، جنگ پر آمادہ کیا ،اُن سے مدد کے وعدے کئے اور جب اُن کے کہنے سے یہودیوں  نے مسلمانوں  سے جنگ کی تو منافق اپنے گھروں  میں  بیٹھے رہے اور یہودیوں  کا ساتھ نہ دیا۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۲۵۱، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۲۲۷، ملتقطاً)

مسلمانوں  کو کفر میں  مبتلا کرنے کیلئے شیطان کا ایک خطرناک طریقہ :

            یاد رہے کہ انسانوں  کو کفر ، گمراہی اور گناہ میں  مبتلا کرنے کے لئے شیطان مختلف راستے اختیار کرتا اور طرح طرح کے طریقے آزماتاہے ،ان میں  سے ایک راستہ یہ ہے کہ شیطان کسی کام کو بندے کے سامنے نیک بنا کر پیش کرتا ہے اور بندہ نیک عمل سمجھتے ہوئے وہ کام کرنا شروع کر دیتا ہے ،پھر شیطان اسے رفتہ رفتہ گناہ کی طرف لے جاتا ہے یہاں  تک کے بندہ گناہ میں  مبتلا ہو جاتا ہے ،پھر ا س گناہ سے ہونے والی رسوائی سے بندے کو خوفزدہ کرکے دوسرے گناہ پر مجبور کرتا ہے ،یوں  اس سے گناہ در گناہ کرواتا رہتا ہے اور آخر کار بندے کو کفر کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور جب بندہ کفر کر لیتا ہے تو شیطان اسے کفر کی اندھیری وادی میں  تنہا چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور یہ بندہ کفر کی حالت میں  موت کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لئے جہنم کے دردناک عذاب میں  مبتلا ہو جاتا ہے۔یہاں  اسی سے متعلق ایک عبرت انگیز حدیثِ پاک ملاحظہ ہو،چنانچہ نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بنی اسرائیل میں  ایک راہب تھا، شیطان نے ایک لونڈی کا گلادبایا اور اس کے مالکوں  کے دل میں  یہ بات ڈال دی کہ اس کا علاج (فلاں )راہب کے پاس ہے۔ چنانچہ وہ اسے لے کر راہب کے پاس آئے تو اس نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا،وہ مسلسل اصرار کرتے رہے یہاں  تک کہ راہب علاج کرنے پر آمادہ ہو گیا،وہ لونڈی(علاج کے لئے)اس کے پاس موجود تھی کہ اس دوران شیطان راہب کے پاس آیا اور ا س کے دل میں  لونڈی کے ساتھ صحبت کرنے کا وسوسہ ڈالا،وہ مسلسل وسوسے ڈالتا رہا یہاں  تک کہ راہب نے اس لونڈی کے ساتھ صحبت کر لی اور وہ اس سے حاملہ ہو گئی ،اب شیطان نے راہب کے دل میں  وسوسہ ڈالا کہ جب اس کے گھر والے آئیں  گے (اور انہیں  یہ بات پتا چلے گی)تو تو رُسوا ہو جائے گا،لہٰذا تو اسے قتل کر دے اور جب ا س کے گھر والے آئیں  تو ان سے کہہ دیناکہ اس کا انتقال ہو گیا ہے ،چنانچہ راہب نے اس لونڈی کو قتل کر کے دفن کر دیا۔اس کے بعد شیطان لونڈی کے مالکوں  کے پاس گیااور انہیں  وسوسے ڈالنے لگااور ان کے دل میں  یہ بات ڈالی کہ راہب نے لونڈی کو حاملہ کر دیا،پھر اسے قتل کر کے دفن کردیا ہے،چنانچہ ا س کے مالک راہب کے پاس آئے اور اس سے لونڈی کے بارے میں  پوچھا تو اس نے کہا:وہ تو مر گئی ہے۔یہ سن کر مالکوں  نے اسے پکڑ لیا(جب وہ اسے قتل کرنے لگے )توشیطان راہب کے پاس آیااور کہنے لگا:میں  نے ہی اس لونڈی کا گلا دبایا تھا اور میں  نے ہی ان لوگوں  کے دلوں  میں  یہ بات ڈالی تھی کہ وہ اسے تمہارے پاس لائیں  ، اب اگر تم میری بات مان لوتو نجات پاجاؤ گے اور میں  تمہیں  ان لوگوں  سے چھڑا لوں  گا۔اس نے پوچھا :کیسے ؟شیطان نے کہا :مجھے دو سجدے کر دو۔جب ا س نے دو سجدے کر لئے تو شیطان نے کہا :میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں  ۔یہی وہ بات ہے جس کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :

’’كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْۚ-فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: جیسے شیطان کی مثال جب اس نےآدمی سے کہا: ’’ کفر کر‘‘ پھر جب اس نے کفر کرلیا تو کہا: بیشک میں تجھ سے بیزار ہوں،  بیشک میں  اس اللّٰہ سے ڈرتا ہوں  جو سارے جہانوں  کا رب ہے۔( رسائل ابن ابی دنیا، مکائد الشیطان، الباب الثانی، ۴ / ۵۴۶، الحدیث: ۶۱)

            یہ حدیث ِپاک امام محمدغزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے احیاء العلوم میں  بھی ذکر فرمائی ہے ،اسے لکھنے کے بعد آپ  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :دیکھو کہ شیطان نے کیسے کیسے حیلے بہانوں  سے راہب کو ان کبیرہ گناہوں  کی طرف مجبور  کیااوراس کی بنیاد صرف یہ بنی کہ اس نے(نیک کام سمجھ کر ) لونڈی کا علاج کرنا قبول کر لیا ۔بعض اوقات آدمی سمجھتا ہے کہ یہ ایک نیکی اور بھلائی کا کام ہے اور شیطان اس کے دل میں  خفیہ طریقے سے یہ بات ڈالتا ہے کہ اسے یہ اچھا کام کرنا چاہئے ،پھر وہ نیکی میں  رغبت رکھنے والے آدمی کی طرح اس کام کو کرتا ہے یہاں  تک کہ معاملہ ا س کے اختیار سے نکل جاتا ہے (اور وہ گناہ میں  مبتلا ہو جاتا ہے ) ،پھر ایک بات دوسری بات کی طرف لے جاتی ہے یہاں  تک کہ اس کے لئے چھٹکارے کی کوئی صورت باقی نہیں  رہتی۔( احیاء علوم الدین،کتاب شرح عجائب القلب،بیان تسلّط الشیطان علی القلب بالوسواس وسبب غلبتہا،۳ / ۳۸-۳۹)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ شیطان کے اس خطرناک طریقے سے ہوشیار رہے اوربطورِ خاص کسی عورت کے ساتھ اچھائی کرنے سے پہلے اس بات پر خوب غور کر لے کہ یہ چیزآگے چل کر اسے گناہ میں  مبتلا تو نہ کر دے گی ،اگر اس کا ذرا سا بھی اندیشہ نظر آئے تو ہر گز ہرگز اپنے نفس پر اعتماد کرتے ہو ئے بظاہر اچھا نظر آنے والا وہ کام نہ کرے کہ اسی میں  اس کے دین کی سلامتی اور ایمان کی حفاظت کا سامان ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں  شیطان کے مکرو فریب سے بچائے،اٰمین۔