banner image

Home ur Surah Al Hijr ayat 18 Translation Tafsir

اَلْحِجْر

Al Hijr

HR Background

وَ حَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ(17)اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ(18)

ترجمہ: کنزالایمان اور اسے ہم نے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا۔ مگر جو چوری چھپے سننے جائے تو اس کے پیچھے پڑتا ہے روشن شعلہ ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اسے ہم نے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا ۔ البتہ جو چوری چھپے سننے جائے تو اس کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑجاتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ حَفِظْنٰهَا:اور اسے ہم نے محفوظ رکھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمانِ دنیا کو ہر مردود اور لعین شیطان سے محفوظ رکھا ہے لیکن جو شیطان آسمانوں  میں  ہونے والی گفتگو چوری کر کے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں  تو ان کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑ جاتا ہے۔ (تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۷ / ۴۹۹)

آسمان میں  داخل ہونے سے شیطانوں  کو روک دیا گیا:

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ’’ شَیاطین آسمانوں  میں  داخل ہوتے تھے اور وہاں  کی خبریں  کاہنوں  کے پاس لاتے تھے ، جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے تو شیاطین تین آسمانوں  سے روک دیئے گئے اور جب سیدُ المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت ہوئی تو تمام آسمانوں  سے منع کردیئے گئے۔ اس کے بعد ان میں  سے جب کوئی باتیں  چوری کرنے کے ارادے سے اوپر چڑھتا تو اسے شِہاب کے ذریعے مارا جاتا۔ شیطانوں  نے یہ صورت ِحال ابلیس کے سامنے بیان کی تو ا س نے کہا: ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے۔ پھر ابلیس نے شیطانوں  کو معلومات کرنے کے لئے بھیجا تو ایک جگہ انہوں  نے دیکھا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآنِ پاک کی تلاوت فرما رہے ہیں  ۔ یہ دیکھ کر وہ بول اٹھے ’’خدا کی قسم یہی وہ نئی بات ہے۔‘‘ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۹۷)

{فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ:تو اس کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑجاتا ہے۔}  شہاب اس ستارے کو کہتے ہیں  جو شعلے کی طرح روشن ہوتا ہے اور فرشتے اس سے شیاطین کو مارتے ہیں ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۹۷، ملخصاً)

شیطانوں  کوشہابِ ثاقب لگنے سے متعلق دو اَحادیث:

(1)… حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللّٰہ تعالیٰ آسمانی فرشتوں  کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ عاجزی کی وجہ سے اپنے پَرمارنے لگتے ہیں  جیسے زنجیر کو صاف پتھر پر مارا جائے۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ اس حکم کو نافذ فرما دیتا ہے ۔ جب ان کے دلوں  سے کچھ خوف دور ہوتا ہے تو ایک دوسرے سے کہتے ہیں  کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا ؟وہ جواب دیتے ہیں  کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے جو فرمایا وہ حق فرمایا اور وہی بلند و بر تر ہے ۔پھر بات چرانے والے شیطان چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں  اور چوری چھپے سننے کے لئے شیطان یوں  اوپر نیچے رہتے ہیں ، چنانچہ سفیان نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں  کو کھول کر اوپر نیچے کر کے دکھایا۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ سننے والے شیطان کو چنگاری جا لگتی ہے اور وہ جل جاتا ہے ا س سے پہلے کہ وہ یہ بات اپنے ساتھ والے کو بتائے اور بعض اوقات چنگاری لگنے سے پہلے وہ اپنے نزدیک والے شیطان کو جو اس کے نیچے ہوتا ہے، بتا چکا ہوتا ہے اورا س طرح وہ بات زمین تک پہنچا دی جاتی ہے ،پھر وہ جادو گر کے منہ میں  ڈالی جاتی ہے ،پھر وہ جادو گر ایک کے ساتھ سو جھوٹ اپنی طرف سے ملاتا ہے، اس پر لوگ اس کی تصدیق کر کے کہنے لگتے ہیں  کہ کیا اس نے فلاں  روز ہمیں  نہیں  بتایا تھا کہ فلاں  بات یوں  ہو گی چنانچہ ہم نے اس کی بات کو درست پایا حالانکہ یہ وہی بات تھی جو آسمان سے چوری چھپے سنی گئی تھی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الحجر، باب الاّ من استرق السمع فاتبعہ شہاب مبین، ۳ / ۲۵۴، الحدیث: ۴۷۰۱)

(2)… حضرت عبداللّٰہ بن عباس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں  مجھے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بتایا کہ ہم ایک رات رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بیٹھے تھے، ایک تارا ٹوٹا، اور روشنی پھیل گئی تو ہم سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں  جب اس جیسا تارا ٹوٹتا تھا تو تم کیا کہتے تھے ؟ہم نے عرض کی ’’ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خوب جانتے ہیں  ۔ ہم تو یہ کہتے تھے کہ آج رات یا تو کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا یا کوئی بڑا آدمی مرا ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ تارے نہ تو کسی کی موت کے لیے مارے جاتے ہیں  نہ کسی کی زندگی کیلئے لیکن ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ کہ اس کا نام مبارک اور بلندہے ، جب کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش اٹھانے والے تسبیح کرتے ہیں ، پھر آسمان والوں  میں  سے جو ان کے قریب ہیں  وہ تسبیح کرتے ہیں  حتّٰی کہ تسبیح کا یہ سلسلہ اس دنیا کے آسمان والے فرشتوں  تک پہنچ جاتا ہے ، پھر عرش اٹھانے والے فرشتوں  کے قریب والے ان سے پوچھتے ہیں  کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا؟ وہ انہیں  خبر دیتے ہیں  ۔ پھر بعض آسمان والے بعض سے خبریں  پوچھتے ہیں  حتّٰی کہ اس آسمانِ دنیا تک خبر پہنچ جاتی ہے تو جِنّات ان سنی ہوئی باتوں  کو اچک لیتے ہیں  اور اپنے دوستوں  تک پہنچا دیتے ہیں ، (ان میں  سے بعض) مار دیئے جاتے ہیں  ۔پھر کاہن جو کچھ اس کے مطابق کہتے ہیں  وہ تو کچھ درست ہوتا ہے لیکن وہ تو اس میں  جھوٹ ملادیتے ہیں  اور بڑھا دیتے ہیں  ۔ (مسلم، کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ واتیان الکھان، ص۱۲۲۴، الحدیث: ۱۲۴(۲۲۲۹))