banner image

Home ur Surah Al Hijr ayat 43 Translation Tafsir

اَلْحِجْر

Al Hijr

HR Background

قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ(41)اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِیْنَ(42)وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِیْنَ(43)

ترجمہ: کنزالایمان فرمایا یہ راستہ سیدھا میری طرف آتا ہے۔ بیشک میرے بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں سوا ان گمراہوں کے جو تیرا ساتھ دیں ۔ اور بیشک جہنم ان سب کا وعدہ ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اللہ نے فرمایا: یہ میری طرف آنے والا سیدھا راستہ ہے۔ بیشک میرے بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں سوائے ان گمراہوں کے جو تیرے پیچھے چلیں ۔ اور بیشک جہنم ان سب کا وعدہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:اللّٰہ نے فرمایا۔}مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’ یہ راستہ اپنے اوپر چلنے والے کو سیدھا چلاتا ہے یہاں  تک کہ ا س پر چل کروہ جنت میں  پہنچ جاتا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت کا معنی یہ ہے کہ دلائل کے ساتھ لوگوں  کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنا ہمارے ذمے ہے۔(قرطبی، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۵ / ۲۱، الجزء العاشر)

            امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اخلاص مجھ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۱۴۵)

علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کا یہ معنی بیان فرمایا کہ ‘‘چنے ہوئے بندوں  کا ابلیس کے بہکاوے سے بچ جانا وہ راستہ ہے جو سیدھا اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچا دیتا ہے۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۴۶۹)

{اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ:بیشک میرے بندوں  پر تیرا کچھ قابو نہیں ۔}  ابلیس نے جو یہ کہا کہ ’’ میں  ضرور زمین میں  ان (یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد) کیلئے (دنیا کی محبت اور تیری نافرمانی کو) خوشنما بنادوں  گا  اور میں  ضرور ان سب کو گمراہ کردوں  گا سوائے اُن کے جو اِن میں  سے تیرے چنے ہوئے بندے ہیں ‘‘ اس کا مطلب بھی یہ نہیں  کہ ابلیس انہیں  جبری طور پر یا زبردستی اپنا پیروکار بنالے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ لوگ خود اپنے اختیار سے اس کی پیروی کریں  گے۔ اسی وجہ سے دوسری آیت میں  وضاحت ہے کہ قیامت کے دن ابلیس کہے گا ۔

’’وَ مَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ‘‘(ابراہیم:۲۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مجھے تم پر کوئی زبردستی نہیں  تھی مگر یہی کہ میں  نے تمہیں بلایا توتم نے میری مان لی ۔

{وَ اِنَّ جَهَنَّمَ:اور بیشک جہنم۔} یعنی بے شک جہنم ابلیس ، اس کی پیروی کرنے والوں  اور اس کے گروہوں ، سب کے عذاب کے وعدے کی جگہ ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۱۰۳)

          نوٹ:یاد رہے کہ کفار ہمیشہ دوزخ میں  رہیں  گے اور جو گناہ گار مومن جہنم میں  گئے تووہ عارضی طور پر وہاں  رہیں  گے۔